وزیراعظم عمران خان اور پرکھنے کا معیار!!
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے دس بارہ دن کو جس انداز پر پرکھا‘ جانچا اور تولا جا رہا ہے تو اس انداز سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ قدیم سعودی عرب میں حجاز کے شہر عکاظ میں اسلامی دور سے قبل ایک سالانہ قومی میلہ منعقد ہوتا تھا جس میں دیگر ثقافتی مظاہروں اور مقابلوں کے علاوہ مشہور عرب شعراءاپنا کلام سناتے تھے۔ 11 میں سے 7 بہترین قصیدوں کو اعلیٰ کپڑے پر سنہری حروف میں لکھ کر کعبہ کے دروازے پر لٹکایا جاتا تھا۔ اسی لئے انہیں ”سبعہ معلقات“ کہتے تھے۔ ان شعراءمیں سے مشہور ترین اور قادرالکلام امراﺅ القیس تھا۔ ہمارے ہاں شاعر کو پرکھنے کیلئے عام طورپر خیال اور اسلوب کو زیربحث لایا جاتا ہے۔ شاعر کی تشبیہات اور استعمارات کا لطف اٹھایا جاتا ہے مگر مشہور ترین اور قادرالکلام امراہ¿ القیس کو اس کی بیوی نے کیسے پرکھا یہ دلچسپ بات ہے۔ امراہ¿ القیس کی بیوی ام جندب اس مقابلہ کی منصف تھیں۔ امراہ¿ القیس کے مقابلے میں ایک اور بڑا شاعر عقلمہ تھا۔ ام جندب نے اپنے شوہر اور عقلمہ کا قصیدہ سنا۔ دونوں شاعروں نے اپنے اپنے گھوڑوں کی شان میں قصیدے لکھے۔ ام جندب نے فیصلہ اپنے شوہر کے خلاف دیدیا۔ لوگ حیران ہوئے اور فیصلے کی تفصیلات معلوم کی گئیں تو معلوم ہو کہ امراہ¿ القیس کا گھوڑا قصیدے چابک مارنے‘ لگام کھینچنے‘ ایڑیاں لگانے اور ہانکنے پر منزل مقصود پر پہنچتا ہے جبکہ عقلمہ کا گھوڑا ڈھیلی لگام سے جا پہنچتا ہے۔ لہٰذا کہا جاتا ہے کہ گھوڑوں پر لکھے گئے قصیدے میں ام جندب نے شاعری کی پرکھ ”ہارس پاور“ سے کی۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد میں جو کلچر متعارف کروایا ہے‘ اس کے ذریعے خود عمران خان کے رفیق کار اور دیرینہ ساتھی بھی ان کی غلط بات یا فیصلے پر تنقید کرنے کی جرا¿ت کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ماضی کی طرح ”سب اچھا ہے“ اور ”سب بہترین ہے“ والا فارمولا کہیں دکھائی نہیں دے گا اور عوام جانتی ہے کہ ”سب اچھا ہے“ کے اندر کس قدر تلخ حقائق پوشیدہ تھے اور بنیادی طورپر ملک کمزور ہو رہا تھا اور ادارے تباہ حال تھے۔ وزیراعظم عمران خان کیلئے ایک تو خود پی ٹی آئی کے لوگ ہی ہیں جو امراہ¿ القیس جیسے قادرالکلام شخص کی بیوی ام جندب کی طرح گھوڑے پر لکھے گئے بہترین قصیدے میں سے بھی ان کی چال پر فیصلہ سنا دیتی ہے‘ لیکن اس کے برعکس وزیراعظم عمران خان کو طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے والی ایسی اپوزیشن کا سامنا بھی ہے جوان ہوکر کڑی نظر کی بجائے نگرانی کر رہی ہے۔ اس سارے قصے میں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے گھوڑے اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر چلانے کیلئے امراہ¿ القیس کی طرح چابک اٹھانے‘ ایڑیاں لگانے اور ہانکنے پر منزل مقصود تک پہنچانا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ان میں زیادہ تر ایسے لوگوں کے ساتھ رہے ہی جو کرپشن اور اقرباءپروری کو شیوہ بنا کر چلتے رہے۔ ایسے میں وزیراعظم کی ہر منطق عجیب و غریب محسوس ہوتی ہے۔ وقت بچا کر قائداعظم کی طرح کام‘ کام‘ کام کو ترجیح دیں تو بھی اور بچت کی ابتدا اپنے کچن اور گھر سے اور دفتر سے کریں تو بھی یہ اچھی بات بھی تنقید میں جا رہی ہے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جس نعرے کی ابتدا وزیراعظم خان کی کہ ”تبدیلی“ آئے گی تو اس کیلئے عمارات کا تبدیل ہونا اور عادات کی تبدیلی کے مرحلے میں Fle ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے ستر سے زائد عرصے میںقائداعظم کے فوراً بعد کے لوگ فروخت ہو گئے۔ اب جو ان کے بعد کی عوام بڑی ہوکر ملک کے مختلف اداروں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ انہوں نے یہ ساری باتیں کتابوں میں پڑھی ہیں اور عملی طورپر کہیں نہیں دیکھی ہیں۔ وہ اس بات کے عادی نہیں ہیں کہ ایک عام پاکستانی اٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں جا سکتا ہے۔ وہ تو شاہانہ انداز کے سوٹڈ بوٹڈ اور باہر کے مہنگے پرفیومز میں لپٹے ہوئے افسران سے واقف ہیں اور پھر یہ افسران بھی ملک کیلئے کسی کی بچت یا ”افسری“ سے ہٹ کر کام کرنے کے عادی نہیں ہیں لہٰذا وزیراعظم عمران خان کیلئے بہت ساری مشکلات ہیں اور اس صورتحال میں امید اگر ہے تو اتنی کہ قائداعظم ایک ایک روپیہ اس ملک کیلئے بچانے کا سوچتے تھے۔ نئے ملک میںآجاسکے مختلف قسم کی مشکلات ہیں مگر زندگی سہولت اور آسانی والی نہیں تھی۔ آج عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد مشکلات کچھ اورطرح کی ہیں مگر موجود ہیں اور ایسے میں خدا کو اس ملک پر رحمت کے علاوہ وزیراعظم کا اپنے موقف پر قائم رہنا اور مصمم ارادے کا ہونا بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو دو کام کرنے ہونگے‘ ایک تو خود کو عوام کے سیاسی شعور سے بالا نہیں رکھنا ہوگا بلکہ جو چیز وہ خود درست سمجھتے ہیں اس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا عوام بھی اسے درست سمجھتے ہیں؟ اور اس کے مطابق عمل کرنے پر تیار ہیں؟ یعنی عمران خان کو عوام کے درمیان رہ کر معلومات حاصل کرنا ہونگی اوردوسری بات چین کے ماٹو کے اصول کے مطابق اپنی قیادت کو عوام سے عوام تک کے لیول پر لیکر آئیں جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے بکھرے ہوئے غیر منظم خیالات کو لیں اور ان پر انتہائی غور و فکر کرکے انہیں جامع اور منظم خیالات میں تبدیل کر دیں اور پھر عوام کے اندر ان خیالات کی ترویج کریں۔ اس وقت تک جب تک وہ ان خیالات کواپنا نہ لیں ورنہ عادتیں بدلنا اور تبدیلی لانا آسان عمل نہیںہوگا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ جہاں امراہ¿ القیس جیسے قادرالکلام کو پرکھنے کیلئے ”ہارس پاور“ کا نقطہ لے لیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے ایسے اقدامات کو بہت دیر سے دیکھا جائے گا جبکہ ذرا سی بات کو پرکھنے کا عمل تیز تر ہوگا اور اس میں پی ٹی آئی والے بھی شامل ہونگے کیونکہ یہ کلچر بھی خود عمران خان کا متعارف کروایا ہوا ہے۔