فیاض چوہان اور شیخ رشید کی سیاست میں سیاست
فیاض الحسن چوہان جب وزیر شذیر نہ تھے تو ہمیں پسند تھے پسند تو وہ اب بھی ہیں۔ مگر پسندیدہ نہیں اس بات کی تشریح کے لئے میرے پاس کچھ نہیں وہ کہتے ہیں کہ شیخ رشید بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور شیخ رشید آج کل نجانے کیا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لال حویلی آمد پر راستے میں موٹرسائیکلیں کھڑی دیکھ کربرہم ہوگئے۔ یہ لمحہ تقریباً سب حکمران سیاستدانوں کی زندگی میں ہر روز آتا ہے۔ ہم توزندگی بر زندگی میں صرف درہم برہم ہی ہوتے ہیں وہ میرے ساتھ گارڈن کالج میں تھے۔ پرویز رشید بھی تھے۔ ایسے ہی تھے جیسے آج کل ہیں تب بھی وہ شیخ رشید کے مقابلے میں تھے۔ بزدار صاحب ہسپتال گئے تو ایک بچی کی جان گئی یہ ایک پہیلی ہے۔ مریضوں کے لئے الگ مشکلات، اب توپورا ملک ہی ہسپتال بن گیا تو ایسے میں ہیلی کاپٹر کا استعمال ٹھیک ہے نہ لوگوں کو پرابلم نہ ٹریفک مسئلہ۔ سکیورٹی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ بھی چار دنوں کی بات ہے۔ خطرہ یہاں بھی نکل آئے گا۔ پھر کیا کیا جائے گا؟ عمران خان بہت سرگرم تھے۔ کبھی یہاں کبھی وہاں! اب صرف گھر اور دفتر محدود ہیں۔ چوہان صاحب نے کہا ہیلی کاپٹر سستا ہے۔ اس کے بعد کہا جائے گا کہ ہوائی جہاز اس سے بھی سستا ہے مگر لوگوں کے ئے کیا سستا ہے۔ اس کا جواب چوہان صاحب کے پاس ابھی نہیں ہے۔
چوہان صاحب کی سنئے کہتے ہیں ہیلی کاپٹر کا استعمال سستا ہے۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں شرط یہ ہے کہ اس میں عمران یا بزدار صاحب سفر کریں وہ بات ایک بہادر آدمی کی طرح کرتے ہیں۔ بزدلانہ معاملہ ہو تو بھی بہادری نظر آتی ہے۔ جب وزیر شذیر نہ تھے تو ہمیں کچھ کچھ پسند تھے۔ ان کی کھری کھری باتیں پسند آتی تھیں۔ مگر جب مصلحت آڑے آئی تو ان کی باتیں کھٹی مٹھی لگتی ہیں پھر بھی مزا آتا ہے۔
کوئی تو وزیر ہے جو وزیر شذیر بننے کی کوشش نہیں کرتا۔
مگر جسے بھی وزیر بنا دیں وہ وزیر شذیر بن جائے گا۔
ہمیں برادرم شیخ رشید کے لئے بھی افسوس ہوتا ہے مگر چوہان صاحب کے لئے زیادہ ہوتا ہے۔ شیخ رشید تو پرانے ہو گئے ہیں۔ چوہان صاحب نے پہلی بار جب بزدار صاحب وزیراعلیٰ پنجاب کا دفاع کیا تو مجھے پتہ چلا کہ انہیں وزیر کیوں بنایا گیا ہے۔ کسی ٹی وی چینل پر چوہان صاحب وضاحتیں دے رہے تھے۔ جیسے دھمکیاں دے رہے ہوں۔
پروٹوکول میں بزدار صاحب اب نوازشریف سے آگے نکل گئے ہیں۔ کئی گاڑیاں بلکہ گاڑیوں کا کاررواں اور ”پھر کارواں“ وزیراعلیٰ پنجاب
عثمان بزدار صاحب آٹھ نو گاڑیوں کے کارواں کے ”میر کارواں“ تھے۔ اس میں کوئی گاڑی چوہان صاحب کی بھی ہوگی۔
برادرم شیخ رشید لال حویلی آرہے تھے۔ پہلے بھی آتے ہیں مگر اس طرح شاید پہلی بار آرہے تھے۔ اپنے راستے میں موٹرسائیکلیں دیکھ کر برہم ہوگئے۔
پہلے وہ درہم برہم ہونے کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ موٹرسائیکلیں ہٹانے سے شاید شیخ صاحب کی اب تسلی نہیں ہونا تھی۔ موٹرسائیکلیں گرا دی گئیں جس پر شہریوں بلکہ شیخ صاحب کے ہمسایوں نے احتجاج کیا۔ پہلے وہ احتجاج نہ کرتے تھے۔ برادرم شیخ صاحب کے سوچنے کی بات ہے۔
میں نے بات کہاں سے شروع کی تھی‘ آج چوہان صاحب شیخ رشید میںیکسانیت ہے۔ اب چوہان صاحب ایک قدم آگے ہیں۔ یہ معاملہ بھی اب شیخ صاحب کا نہیں رہا۔ انہیں کچھ اور کرنا پڑے گا۔
مجھے معلوم نہیں کو چوہان صاحب بات کس کے بارے میں کر رہے تھے۔ وہ بہت غصے میں تھے۔ چوہان صاحب نے فرمایا کہ میں تو یہ سمجھا تھا کہ یہ آدمی کے بچے ہیں‘ یہ تو جانور کے بیٹے ہیں۔ فیاض صاحب ایک سیاسی ووٹر کی طرح بولتے ہیں۔ میں نے اس دوست سے اتفاق نہیں کیا کہ وہ ایک سیاسی بدمعاش کی طرح بولتے ہیں۔ وہ کسی بھی مخالفت کیلئے گھٹیا کا لفظ بولتے ہیں۔ گھٹیا کا لفظ ان کا تکیہ کلام بن گیا ہے۔ شاید؟ یہ جو کلچر سیاست کے ایوانوں میں ”ترقی“ کررہا ہے تو بات کہاں پہنچے گی۔ رواداری اور وضع داری کا زمانہ ختم ہو رہا ہے۔ بس ”ترقی“ ہو رہی ہے۔
٭٭٭٭٭