قائمہ کمیٹی نے ایل این جی معاہدہ نیب کو بھجو انے کی سفارش کر دی
اسلام آباد (نامہ نگار) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم نے قطر ایل این جی معاہدہ نیب کو بھجوانے کی سفارش کردی ہے ،چئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا ہے کہ قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدے میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کو خفیہ رکھاجائے، ہمارا یہ سوال ہے کہ قطر کے ساتھ پندرہ سال کا معاہدہ کیوں کیا گیا، پی ایس او حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ قطرکیساتھ گورنمنٹ ٹوگورنمنٹ سطح پر ایل این جی معاہدہ کی منظوری ای سی سی نے دی تھی، قطر کیساتھ معاہدے کی کلاز25کے تحت دونوں ملکوں کیلیے معاہدہ کوخفیہ رکھنا لازم ہے،کمیٹی اجلاس میں انکشاف ہوا کہ 2003سے صارفین سے ڈیم ڈیوٹی وصول کی جارہی ہے ہر دو سال بعدای سی سی سے اس کو توسیع مل جاتی ہے،سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائو س میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قطر سے امپورٹ کی گئی گیس ، ایل این جی ٹرمینل ، بلوچستان کے علاقہ کوہلو میں گیس کے ذخائر سے گیس نہ نکالنے کے معاملات ، ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں متعین کرنے کامیکنزم کے علاوہ گزشتہ سات سالوں کے دوران اکٹھی اور استعمال کی گئی پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاہدے کی شرائط کے تحت فریقین اس کو ظاہر نہ کرنے کے پابند ہیں۔ عالمی سطح پر اس طرح کے خریدو فروخت کے معاہدوں کے خفیہ رکھنے کا معاہدہ کیا جاتا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی سے غلط بیانی کی جارہی ہے۔ ہمارے پاس موجود کاپی میں درج ہے کہ کنسلٹنٹ نے پندرہ سال کی تجویز نہیں دی ۔کنسلٹنٹ نے آن سپاٹ خریداری اور پانچ سالہ معاہدے کی تجویز دی تھی اور ایل این جی ٹرمینل لگانے والے کو تحفظ دینا مقصود تھا۔ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ایل این جی معاہدے کو حکومتی سطح پر اٹھایا جاسکتا ہے ۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ نیب پہلے ہی اس معاملے کی تحقیقات کررہا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ معاملے کو نیب کو ریفر کرکے انکوائری رپورٹ حاصل کی جائے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان کے علاقہ کوہلو میں گیس کے ذخائر کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ گزشتہ 25سالوں سے بلوچستان میں گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں مگر گیس نہیں نکالی جارہی ہے ہمارے ملک میں گیس موجود ہے مگر باہر سے مہنگی ایل این جی منگوانا ملک دشمنی سے کم نہیں ہے۔سینیٹر میرکبیر احمدمحمد شاہی نے کہا کہ ہماری معدنیات نکالی جارہی ہیں صوبائی حکومت کو کچھ نہیں مل رہا ۔سینڈک میں سے صوبائی حکومت کو صرف دو فیصد حصہ مل رہا ۔شاید اس دو فیصد کی بھی ادائیگی نہیں کی جارہی ۔ جس پر وفاقی وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ بلوچستان کے معدنیات نکالنے کے معاہدوں کا بھی جائزہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم پرصحیح طریقے سے عمل نہیں ہورہا۔اگلے ہفتے بلوچستان کا دورہ کرکے مختلف سائٹس کا جائزہ لیں گے ۔تیل و گیس کی تلاش کے سلسلے میں مسائل کے حل کے لئے وزارت میں ایک ٹاسک فورس بنا رہے ہیں ۔اگلے چھ ماہ میں بلوچستان میں تیل و گیس کے لحاظ سے بہتری نظر آئے گی۔ کمیٹی اجلاس میں انکشاف ہوا کہ 2003سے صارفین سے ڈیم ڈیوٹی وصول کی جارہی ہے جس کو
2006میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے ختم کرنے کا خط بھی لکھا تھا مگر ہر دو سال بعدای سی سی سے اس کو توسیع مل جاتی ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ڈیم ڈیوٹی اس لئے لی جاتی ہے کہ اس سے ریفائننگ کے شعبے کو بہتر کیا جائے گا ۔ وزارت پٹرولیم عوام کی جیب سے پیسہ نکال کر ریفائنریوں کو دے رہی ہے انہیں پروٹیکشن دی جارہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے یہ کیوں دی جارہی ہے ۔حکومت نے ریفائنریوں کو کتنا تحفظ دیا گیا اور اس مد میں رقم کو کہاں لگایا گیا ہے۔ اگر عوام سے پیسہ لیا جارہا ہے تو ان پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔