صدارتی انتخاب : ق لیگ نے بھی حمایت کر دی میرے اور صدر ممنون کے درمیان فرق عوام کو نظر آئیگا : عارف علوی
لاہور/ اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نمائندہ خصوصی) پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی مسلم لیگ ق اور ان کے اتحادیوں کی صدارتی الیکشن کیلئے حمایت لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے قائم مقام گورنر پنجاب اور پرویزالٰہی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ان کے ہمراہ جہانگیر ترین، گورنر سندھ عمران اسماعیل، سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری سمیت مخدوم خسرو بختیار، اسحاق خاکوانی، عامر ڈوگر جبکہ چودھری پرویز الٰہی کے ہمراہ مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات کامل علی آغا، چودھری شفقات حسین موجود تھے۔ جھنگ سے آزاد حیثیت میں جیت کر پی ٹی آئی کا ساتھ دینے والے مولانا معاویہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پرویز الٰہی نے کہا کہ پنجاب سے الیکشن میں پہلے بھی اچھی خبریں ملی ہیں اور اب صدارتی الیکشن میں بھی اچھی خبر ملے گی۔ ہم اپنے دوستوں سے رابطہ کبھی نہیں توڑتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ بھی ہمارا رابطہ قائم ہے۔ گنڈا پور صاحب سے بھی تیسرے چوتھے دن رابطہ ہوجاتا ہے۔ جہاں تک ان کی انصاف حاصل کرنے کے ایشو کا تعلق ہے ہم اور مسلم لیگ ق ، پی ٹی آئی سب ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور ساتھ ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اب انہیں انصاف کیسے نہیں ملتا۔ ان شاءاللہ انہیں انصاف ملے گا۔ شہبازشریف نے جو غلط کام کئے ان کے محاسبہ کیلئے ہم نے بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا سندھ کے حالات میں بہتری لانے کیلئے ہم پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی تعاون کرنے اور تعاون لینے کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور گورنر عمران اسماعیل مل کر کراچی کے پانی اور صحت کے مسائل حل کرنے کیلئے سب کا تعاون حاصل کریں گے۔ اس موقع پر جہانگیر ترین نے کہا کہ صدارتی الیکشن میں پی ٹی آئی کا الیکشن ہے اور جس طرح انہوں نے عام انتخابات میں محنت کی تھی اب بھی بھرپور محنت کریں گے۔ ان سے پوچھا گیا کہ جہاز کا فی کلومیٹر خرچہ کتنا آتا ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے جہاز کبھی کرائے پر نہیں لیا اپنے جہاز میں اس لئے نہیں معلوم۔ مخدوم خسرو بختیار جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی شرط پر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور اب صوبے کے قیام کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی کہ مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل چودھری طارق بشیر چیمہ نے سوال کرنے والے صحافی سے کہا کہ بہاولپور صوبہ محاذ والے یہاں ہی بیٹھے ہیں براہ کرم متنازعہ سوال نہ پوچھیں۔ عارف علوی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا میرے اور صدر ممنون کے درمیان بڑا فرق ہے، جو عوام کو نظر آئے گا، صوبوں میں یکجہتی قائم کرنا صدر کی ذمہ داری ہے۔ صوبائی ہم آہنگی اور یکجہتی کے لئے عوام کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ عمران خان کی حکومت میں پاکستان کا اچھا وقت شروع ہورہا ہے۔ اداروں کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے۔ عارف علوی نے کہا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے فون کرکے مجھے ووٹ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔چوہدری سرور نے گورنر کا حلف صرف اس لئے نہیں اٹھایا کہ مجھے ووٹ کاسٹ کر سکیں۔ عارف علوی نے داتا دربار پر حاضری بھی دی۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کی سربراھی میں پیپلز پارٹی کے وفدنے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل سے ملاقات کی، وفد نے صدارتی انتخاب مےں حمائت کرنے کی درخواست کی، سردار اختر مےنگل نے کہا کہ ووٹ کے حوالے سے فیصلہ ان کی پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ صدارتی انتخاب میں اپوزیشن متحد ہو جائے تو برتری حاصل ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی کو میرے لئے ووٹ کرنا آسان ہے۔ یہ ضمیر کا ووٹ ہے۔ زرداری مجھے جتوانے میں سنجیدہ ہیں۔ صدارتی انتخاب میں زرداری صاحب سینٹ الیکشن والی ترکیب نہیں دہرائیں گے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ وہ مجھے ووٹ دیں گے مولانا فضل الرحمن صدارت کیلئے فٹ نہیں۔ فضل الرحمان نے کہا کہ صدارتی انتخابات میں ان کا دستبردار ہونا مشکل ہے کیونکہ متحدہ مجلس عمل کی 5اور دیگر جماعتوں کے ساتھ انہیں اس بارے میں دس جماعتوں کو قائل کرنا پڑے گاجبکہ چوہدری اعتزاز احسن کو صرف تنہا پیپلزپارٹی کا مسئلہ ہے۔ مجھے تو سب قبول کررہے ہیں پیپلزپارٹی بھی اس دولہا پر مان جائے۔ 13ویں صدرپاکستان کے انتخاب کےلئے پولنگ 4 ستمبر منگل کو ہو گی۔ سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج صدرِ مملکت کا انتخاب کرے گا۔ الیکٹورل کالج سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی یعنی خیبر پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلی پر مشتمل ہے الیکٹرول کالج کے ارکان کی کل تعداد 1174 ہے۔ ان 1174 ارکان میں سے سینٹ ارکان کی تعداد 104، قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 342 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کل ارکان کی تعداد 728 ہے۔ صدارتی انتخاب کے لیے الیکشن کمشن کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو گئیں۔ صدارتی انتخابات کیلئے مجموعی طور پر 1500 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔
صدارتی الیکشن