صدارتی انتخاب کل‘ پیپلز پارٹی ‘ پی ٹی آئی کو جتوا رہی ہے‘ فضل الرحمن : شہباز سے ملاقات
لاہور/ اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ خبرنگار+ خصوصی نامہ نگار+ خصوصی نمائندہ+ سپیشل رپورٹ+ وقائع نگار خصوصی) سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کل (منگل) کو پاکستان کے 13ویں صدر مملکت کا انتخاب کریں گے۔ چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی الیکشن کمشنر پریذائیڈنگ افسر کے فرائض سرانجام دیں گے۔ پولنگ دس بجے سے شام چار بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گی۔ صدر مملکت کے عہدے کے لئے حکمران جماعت پی ٹی آئی اور ان کی حلیف جماعتوں کے مشترکہ امیدوار ڈاکٹرعارف علوی، مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار چودھری اعتزاز احسن کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ صدر کے انتخاب کیلئے پولنگ قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 10بجے سے بغیر کسی وقفے کے شام 4 بجے تک جاری رہے گی، قومی اسمبلی، سینٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ووٹ ایک تصور ہو گا جبکہ خیبرپی کے کے 1.75 ارکان، پنجاب اسمبلی کے 5.50 ارکان، سندھ اسمبلی کے 2.55 ارکان کی اوسط سے ایک ووٹ کاسٹ ہوگا، اپوزیشن کی طرف سے 2 امیدوار میدان میں ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کے جیتنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ دوسری جانب مشترکہ صدارتی امیدوار لانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے کوششیں دوبارہ شروع کر دیں۔ خورشید شاہ نے کہا ہے ہمیں سیاسی میچورٹی دکھانی ہوگی۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کا ایک امیدوار ہو تو حکومت کے لیے جیتنا آسان نہیں ہوگا، اپوزیشن کے 2 امیدوار ہونے کا فائدہ حکومت کو ہورہا ہے۔ ہم سیاستدان ہیں، مایوس نہیں ہوتے، آخری وقت تک ایک امیدوار کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ قمرزمان کائرہ نے کہا صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کے ساتھ لاہور آئے ہیں، ان سے بہتر صدارتی امیدوار نہیں ہوسکتا، توقع تھی سب ان کے نام پر متفق ہوجائیں گے۔ لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا اپوزیشن کا اتحاد نہ پہلے تھا نہ اب ہے، ووٹ مانگنے کے لیے نواز شریف کے پاس جیل جانے کو بھی تیار تھے، سیاسی سفر کے اندر معافیاں نہیں مانگنی چاہئیں، اگر یہ روایت شروع ہوئی تو ہر دور کے حکمرانوں کو پیپلزپارٹی سے معافی مانگنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اعتزاز صدر بنے تو صدرکے اختیارات مزید بڑھ جائیں گے، آغاز میں چودھری اعتزاز احسن کا نام نامزد نہیں تجویز کیا تھا۔ ہمارا اپوزیشن کا کوئی اتحاد نہیں ہے۔ اپوزیشن سے ایک نکتے پراتفاق رائے ہے، اپوزیشن کوئی باقاعدہ اتحاد نہ تھی نہ ہے۔ فضل الرحمن سے اعتزاز احسن کے حق میں دستبردار ہونے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اعتزاز احسن بہترین امیدوار ہیں۔ دوسری طرف جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماﺅں نے صدارتی انتخاب سے متعلق بات چیت کی۔ مسلم لیگ ن اور ایم ایم اے میں شامل جماعتوں سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کے حق میں پیپلز پارٹی کا امیدوار دستبردار کروانے کے لئے کوششیں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو متحدہ اپوزیشن کا امیدوار تسلیم کرکے پیپلز پارٹی آئندہ کے لئے مضبوط مشترکہ اپوزیشن اور جمہوریت کو یقینی بنانے میں کردار ادا کرسکے گی۔ گزشتہ روز ایم یم اے میں شامل جماعتوں سمیت اپوزیشن جماعتوں کے رہنماﺅں مولانا فضل الرحمن، پیر اعجاز ہاشمی، حافظ ڈاکٹر عبدالکریم، مولانا امجد خان، اکرم درانی، مولانا صلاح الدین، مولانا راشد سومرو، رحمت اللہ خان، طارق خان اور سید آغا شامل تھے جبکہ مولانا فضل الرحمن اور ان کے وفد کا مسلم لیگ ن کے صدر و قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی میاں شہباز شریف نے استقبال کیا۔ ان کے ہمراہ پنجاب اسمبلی میں مجوزہ قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز، سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، رانا تنویر حسین اور خواجہ سعد رفیق موجود تھے۔ ملاقات میں صدارتی انتخاب کے لئے اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمن ہی کو بنائے رکھنے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار چودھری اعتزاز احسن کو دستبردار کروانے کے لئے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے قائدین مکمل یکسوئی اور سنجیدگی کے ساتھ صدارتی الیکشن کا معرکہ سر کرنے کے لئے تیار ہیں۔ میں اپنی بھرپور حمایت پر ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا کہ مجھے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑوایا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوششیں جاری ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعتیں ایک امیدوار پر متفق ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن کے فیصلے کو تسلیم کرے تاکہ صدارتی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کا بھرپور مقابلہ کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ایم ایم اے کی پانچ جماعتوں سمیت اپوزیشن کی دیگر پانچ جماعتوں نے صدارتی امیدوار بنایا ہے۔ ان دس جماعتوں کے برعکس صرف پیپلز پارٹی اکیلی اپنے پلیٹ فارم پر میرے حق میں فیصلہ کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تنازعہ کے باعث مسلم لیگ ن نے مجھے صدارتی امیدوار نامزد کیا کیونکہ میرے پیپلز پارٹی، آصف زرداری اور چودھری اعتزاز احسن سے دیرینہ اور بہت اچھے تعلقات ہیں۔ پیپلز پارٹی ہی نے مجھے آل پارٹیز کانفرنس کا کنوینر نامزد کیا جبکہ باقی جماعتوں نے اس کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم قربانی کے لئے، ڈنڈے کھانے، جیلوں میں جانے کے لئے ہم قابل قبول ہیں تو صدارت کے لئے قابل قبول کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا لیکن پھر ایک گھنٹہ بعد ہی انہیں شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لئے دستخط کرنا پڑے۔ شہباز شریف ایک منصب کے لئے قبول ہیں تو دوسرے کے لئے کیوں نہیں۔ فضل الرحمن نے کہا کہ پی پی نے پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار کو جتوانے کیلئے اعتزاز احسن کو کھڑا کیا۔ پی پی حکومتی امیدوار کو جتوا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے آج ساتھ نہ دیا تو کل ایک ہونے کی بات نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ جن طالبان کے بارے میں وہ افسانہ گھڑ رہے ہیں اس پر میں کہتا ہوں کہ جس کے میں نشانے پر ہوں وہ میرے کہنے پر کوئی منصوبہ بنائے گا اگر کسی نے منصوبہ بنایا ہے تو خود بھگتے۔ میاں حمزہ شہباز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ صدارتی امیدوار ہیں تاہم جو جماعتیں ساتھ نہیں ان کو بھی ہم راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم نے مولانا فضل الرحمن کی کامیابی کے لئے دعا بھی کی اور حلوہ بھی کھایا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کے سربراہ اور جمعیت علماءاسلام (ف) کے مرکزی امیر اور حضرت مولانا مفتی محمود کے فرزند ہیں، ان کے ساتھ نئے قریبی تعلق کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی وجہ سے پی ٹی آئی کی کامیابی کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ متحدہ اپوزیشن کو تقسیم کرنے کا کام نہیں کرنا تو انہیں اپنا صدارتی امیدوار دستبردار کروا لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وگرنہ لوگ اور باتیں کریں گے جو ہم نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے اپیل کی کہ وہ اپنا امیدوار مولانا فضل الرحمن کے حق میں دستبردار کروالیں۔ ان کا مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے کا مطلب ہوگا کہ ہم پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط اور یقینی بنا رہے ہیں۔ قمر زمان کائرہ نے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی میں سب اعتزاز کو دولہا مانتے ہیں۔ مولانا نے خفت مٹانے کی کوشش کی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ووٹ فضل الرحمن کو دیں گے۔ نئے پاکستان میں صرف 50 روپے کلومیٹر میں ہیلی کاپٹر کا سفر ممکن ہوگیا۔ حکومت نے باگ ڈور سنبھال لی ہے، اب وعدے پورے کریں۔ حکومت نے سو دن میں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستان کو واضح خارجہ پالیسی بنانی چاہئے۔ قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر بحث کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات منعقد کرانے میں ناکام رہا۔سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کرنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کو ایک اسلامی اور ویلفیئر ریاست بنانے کے لیے حکومت کو تعلیم، صحت، روزگار اور عدل اجتماعی کی طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ حکومت کی طرف سے ایک کروڑ نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کے اعلان سے پوری قوم کو ایک حوصلہ ملاہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے سنگھوٹہ سوات میں اجتماع ارکان سے خطاب اور بعدازاں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ اس وقت حکومت کے لیے سب سے ضروری کام یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے دیگر 436 ملزموں کو احتساب کے کٹہرے میں لائے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں حتمی حکمت عملی بنانے کے لئے آج اسلام آباد میں اجلاس بلا لیا ہے۔ اجلاس میں شرکت کے لئے آصف علی زرداری بھی اسلام آباد پہنچیں گے۔ پی پی پی کے ذرائع کے مطابق پی پی پی کے سینئر رہنما مشترکہ طور پر مولانا فضل الرحمنٰ سے ملاقات کر کے انہیں اپنے امیدوار اعتزاز احسن کے حق میں دستبردار کرانے کی آخری کوشش کرینگے۔ پی پی پی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کے امیدوار اعتزاز احسن کی پوزیشن مولانا کے مقابلے میں بہتر ہے۔ اس لئے وہ مولانا کو صدارتی ریس سے دستبردار کرانے کی آخری کوشش کرینگے۔
صدارتی انتخاب
اسلام آباد (محمد نواز رضا‘ وقائع نگار خصوصی) صدارتی انتخاب میں متفقہ امیدوار کی نامزدگی میں ناکامی کے بعد متحدہ اپوزیشن کا شیرازہ بکھر جانے کا امکان ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے صدارتی انتخاب میں اپوزیشن جماعتوں کے تعاون نہ کرنے پر الزام عائد کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے درمیان فاصلے پیدا ہوگئے ہیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے بارے میں خاصے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے آصف علی زرداری سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں لیکن تاحال انہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق صدارتی انتخاب میں منقسم ہونے والی اپوزیشن کو دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا خاصا مشکل ہوگا۔ اپوزیشن کے منقسم ہونے سے حکومتی اتحاد کو تقویت مل سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کو وارننگ دی ہے کہ آج اتحاد نہیں کیا تو کل متحدہ اپوزیشن کے اتحاد کا کوئی فائدہ نہیں۔ پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے موقع پر ووٹ نہیں دئیے اب حکومتی امیدوار کی کامیابی کی راہ ہموار کررہی ہے۔
اپوزیشن / ناکام