• news

کیا بڑے لوگ خدا ہیں‘ چیف جسٹس‘ پولیس میں سیاسی مداخلت‘ خاور مانیکا کی بیٹی سے بدتمیزی کی انکوائری کا حکم

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے دو انکوائریو ں کا حکم دیا ہے جن میں پہلی انکوائری تبادلے کے معاملے پر پولیس میں سیاسی مداخلت اور دوسری انکوائری خاور مانیکا کی صاحبزادی کے ساتھ بدتمیری کا معاملہ ہے، عدالت نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے میں سیاسی مداخلت کے معاملے میں آئی جی پنجاب کو ایک ہفتے میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کر نے کا حکم دیا ہے جبکہ عدالت نے مبشرہ مانیکا کے ساتھ بدتمیری کی انکوائری ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابوبکر کے کو سونپتے ہوئے معاملے میں ایک ہفتے میں انکوائری رپورٹ طلب کرلی ہے، دوران سماعت چیف جسٹس میا ں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک اجلاس میں تمام آئی جیز کو کہا تھا کہ سیاستدانوں کی محتاجی چھوڑ دیں پولیس سیاسی دباﺅ اور حاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے، مجھے توآئی جی پنجاب نے مایوس کیا، کیا اپ نے بطور آئی جی دیانتداری کا مظاہرہ کیا ،ہم بچی کو مس ہینڈل کرنے اور پولیس میں سیاسی مداخلت پر ایکشن لیں گے، عدالت پولیس کی جانب سے خاورمانیکا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی پر شرمندہ ہے، اور عدالت قوم کی جانب سے معذرت کرتی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ کوئی قبائلی ملک نہیں یہاں قانون چلتا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔پو لیس افسروں نے بتایا کہ انہو ں نے اپنا اپنا بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے ،آئی جی نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کے پرسنل اسٹاف افسر اور چیف سیکورٹی افسر بھی عدالت میں آ چکے ہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ خاور مانیکا کدھر ہیں؟ اور وہ شخص کہاں ہے جو پراپرٹی ٹائیکون ہے؟ اسی دوران ایک شخص نے آگے بڑھ کر بتایا کہ میں احسن اقبال جمیل ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تم وہی ہو نا جو اس دن وزیراعلیٰ کے ساتھ تھے ،چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ آپ کے افسر کو وزیراعلیٰ نے بلایا ہے ۔ آئی جی نے جواب دیا کہ میں نے بیان حلفی جمع کرایا ہے، اس میں لکھا ہے کہ رضوان گوندل کو آئندہ وزیراعلیٰ کے دفتر نہ جانے کا کہا تھا ۔عدالت کے استفسار پر احسن اقبال گجر نے بتایا کہ وہ خاور ما نیکا کے بچو ں کے گا رڈین ہیں ،چیف جسٹس نے احسن گجر سے کہا کہ جس کا دل چاہے پولیس کو بلاکر ذلیل کردے، آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا،چیف جسٹس نے خاور مانیکا سے استفسار کیا کہ خاور مانیکا صاحب آپ حیات ہیں احسن گجر آپ کے بچوں کے کسٹوڈین کیسے ہیں؟خاور مانیکا نے جواب دیا کہ احسن گجر فیملی کا ہمارے ساتھ 1970 سے روحانی تعلق ہے۔خاور مانیکا نے مزید بتایا کہ میری بیٹی سے پولیس اہلکاروں نے بدتمیزی کی تھی وہ کانپ رہی تھی بیٹی نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے شراب پی رکھی ہے میں نے پولیس والوں کو ڈانٹا ان سے شراب کی بوآرہی تھی میں نے کہا جہاں یہ جارہی ہے اب اسی دربار سے معافی ہوگی۔عدالت کو بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کا ہا تھ بھی پکڑا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بیٹی کا تقدس عزیز ہے جن پولیس اہلکاروں نے بچی کا ہاتھ پکڑا ان کے خلاف ایکشن لیں گے، خاور مانیکا نے بتایا کہ میں نے ڈی پی او سے کہا کہ اپ اس معا ملے میں ایکشن لیں۔ میری بیٹی نے کہا کہ کیا کوئی عورت رات کو پیدل نہیں چل سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیٹی کے ساتھ جو ہوا اس پر ایکشن لیں گے ہمارا تعلق وزیراعلیٰ کے معاملے سے ہے ،آپ کی بچی کے ساتھ جو ہوا غلط ہوا۔خاور مانیکا نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ میں نے پولیس کا ڈانٹا تو انہوں نے مجھ سے معافی مانگی۔کمرہ عدالت میں خاور مانیکا جب اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کے با رئے میں بیان کر رہے تھے تو آبدیدہ ہو گئے۔انہوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ اپ میری بیٹی کو بلوا کر پوچھ لیں،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی بچی کے والدین ہیں، بچی کے ساتھ جس بھی پولیس اہلکار نے بدتمیزی کی اس کے خلاف ایکشن ہو گا، لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کیوں مداخلت کی ، عدالت کو خاور مانیکا نے ناکے پر روکے جانے والے واقعے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کو جب روکا اور ان سے کہا کہ باہر آئیں اس وقت میں گا ڑی میں موجود تھا لیکن پولیس کو کیسے پتہ چلا کہ میں بیٹھا ہوا ہوں؟ چیف جسٹس نے احسن جمیل سے کہا کہ آپ ہوتے کون ہیں تبادلے کی ہدایت دینے والے، آپ وزیراعلیٰ کے دفتر میں کیا کررہے تھے۔احسن جمیل نے کہا کہ میں چو نکہ گارڈین ہو ں اور ما نیکا کی بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ،مبشرہ مانیکا پانچ روز سے پیدل چل کرجارہی تھی چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی افریقہ سے فون کرائے جارہے ہیں پولیس پر دبا¶ ڈالنے پر کیا مقدمہ بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے احسن جمیل سے کہا کہ بتائیں کہ اپ کا وزیراعلیٰ سے کیا تعلق ہے آپ سمجھتے ہیں سیاسی اثر کی وجہ سے پولیس کو ذلیل کرالیں گے۔ احسن جمیل نے بتایا کہ میں بچوں کا کفیل ہوں ان کی وجہ سے ایکشن لیا ، اس وقت عدالت کو رضوان گوندل نے بتایا کہ احسن جمیل نے کہا کہ آپ کو پیغام دیا لیکن آپ نے عمل نہیں کیا کہا گیا کہ آپ ان کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگیں۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ احسن جمیل گجر کے خلاف پولیس پر دبا وڈالنے کا مقدمہ بنتا ہے احسن جمیل گجر کے خلاف کارروائی کریں گے۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اپنے ادارے کو ذلیل کرادیا انسپکٹر جنرل آف پولیس نے اپنے ادارے کا مورال گرا دیا ہے۔ آپ نے میری دی ہوئی ہدایات بھلا دیں۔ احسن گجر کے خلاف کیوں نہ ایکشن لیا گیا ،آئی جی صاحب آپ کے علم میں تھا کہ ڈی پی او کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بلایا ہے۔ کلیم امام نے بتایا کہ مجھے اس وقت پتہ چلا جب ڈی پی او وزیراعلیٰ آفس روانہ ہوچکے تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے ڈی پی او کو وزیراعلیٰ آفس جانے سے منع کیوں نہیں کیا؟ آئی جی نے کہا کہ ڈی پی او سے میں نے کہا آئندہ وزیراعلیٰ آفس روانگی سے پہلے مجھ سے اجازت لینا ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی پی او کا تبا دلہ کیا گیا اپ بتائیںکہ اس کے تبادلے کا حکم نامہ کہاں ہے؟ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کا حکم زبانی دیا تھا۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ رات ایک بجے تبادلہ کیا گیا، تبادلے کے زبانی احکامات کیوں دیئے کیا صبح نہیں ہونی تھی وہ فائل دکھائیں جس میں آپ نے تبادلے کے احکامات جاری کئے، آپ اس وقت کہاں تھے تو آئی جی پنجاب نے بتایا کہ تبادلے کا حکم دیتے وقت میں اسلام آباد میں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے کہا تھا کہ آزاد ہوجائیں آپ نے ڈی پی او سے پوچھا کہ وزیراعلیٰ نے بلا کر کیا کہا؟ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ مجھ تک واقعے سے متعلق متضاد اطلاعات پہنچیں تھیں ڈی پی او پاکپتن کو حقائق کے مطابق ٹرانسفر کیا گیا ہے ڈی پی او رضوان گوندل نے حقائق چھپائے غلط بیانی کی جس پر تبا دلہ کیا گیا ، جب مجھ کو اس با رئے علم ہوا تو رات آٹھ بجے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا فیصلہ کرلیا تھا ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ ضابطے کے مطابق کیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس افسر کا سیاسی اثر و رسوخ کے تحت تبادلہ کیوں کرایا گیا پی ایس او نے بتایا کہ وزیراعلیٰ نے آر پی او اور ڈی پی او کو چائے پر بلایا تھا ڈی پی او نے بتایا کہ ڈی آئی جی نے کہا آپ کا تبادلہ کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نے کہا تھا صبح تک آپ کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے ،پی ایس او وزیراعلیٰ نے عدالت کو بتایا کہ یہ الفاظ میں نے نہیں کہے، ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ تحریری طور پر تبادلہ ایک بج کر سات منٹ پر کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈی آئی جی صاحب آپ نے آج تک کتنے آرڈر رات ایک بجے کئے؟ ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ اس سے پہلے ایک افسر کو رات دو بجے معطل کیا تھا، چیف جسٹس نے کہا آپ لوگ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں آپ لوگوں کی انکوائری جے آئی ٹی سے کراسکتے ہیں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب کو نوٹس کریں گے،احسن گجر کے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیا گیا۔چیف جسٹس نے احسن گجر کی سرزنش کر تے ہوئے کہا کہ عدالت میں کھڑے ہو کر جھوٹ مت بولیں، جس کا دل چاہے پولیس کو بلاکر ذلیل کردے، وزیراعلیٰ کو کیا حق تھا کہ پولیس کو بلا کر کہتا جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے صرف داد رسی کرنے کا کہا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں وزیراعلیٰ کو نوٹس دینا چاہیے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وزیراعلیٰ قبائلی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی طرح قبائلی رواج کے مطابق حل کر نا چا ہتے تھے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ کوئی قبائلی ملک نہیں یہاں قانون چلتا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے،اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ وزیراعلیٰ پنجاب کو طلب کرکے پوچھا جائے، دائیں بائیں اور درمیان سے جھوٹ بولا جارہا ہے، ہم سوچ رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو عدالت بلائیں، وزیراعلیٰ کا اس واقعے سے کیا تعلق تھا۔چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعلی پنجاب اور بڑے لوگ خدا ہیں؟آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے، ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خودمختار ہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی ہے، چیف سکیورٹی افسر نے بتایا کہ کچھ لوگ سکیورٹی پروٹوکول کے بغیر وزیراعلیٰ ہا¶س جاتے ہیں۔ عدالت نے آئی ایس آئی کے کرنل طارق فیصل کو طلب کیا تو کرنل طارق نے عدالت کو بتایا کہ پولیس افسر رضوان گوندل سے ان کا پرانا تعلق ہے اور دوست کے طور پر ان کو مشورہ دیا تھا ، میری پوسٹنگ فیصل آباد میں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ کا نام معلوم ہے، بتائیں اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟کرنل طارق نے بتایا کہ مجھے ایک مشترکہ دوست نے کہا تھا کہ رضوان گوندل کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو فون کر کے ان سے بات کی، یہ میرا ذاتی رابطہ تھا، میرے محکمے کا اس سے لینا دینا نہیں ، ان سے میری دوستی ہے،اس معاملے سے آئی ایس آئی کا تعلق نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بڑے افسروں کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور آپ اس طرح نجی سطح پر کام کرتے ہیں، لوگوں سے رابطے کرتے ہیں ۔ کرنل طارق نے کہا کہ میں نے رضوان گوندل کو ڈیرے پر نہ جانے کیلئے کہا تھا مجھ سے منسوب کر کے غلط بیانی کی گئی ،تا ہم عدالت نے ان کو کہا کہ آئندہ آپ بھی احتیاط کریں۔ عدالت نے کہا کہ اگر احسن گجر کے خلاف کیس بنتا ہے تو ایکشن لیا جائے۔
ڈی پی او تبادلہ کیس

ای پیپر-دی نیشن