اعتزاز احسن کو پیپلز پارٹی کی توقعات سے کم ووٹ ملے
اسلام آباد (عترت جعفری) صدارتی انتخاب کے لئے پی پی پی کے نامزد امیدوار بیرسٹر اعتزاز احسن نے اگرچہ اپنی پارٹی ووٹ سے 5 ووٹ زیادہ لئے ہیں تاہم یہ پی پی پی کی توقع سے کم رہے۔ صدارتی انتخاب کے نتائج سامنے آنے کے بعد پی پی پی کے اندرونی حلقوں نے مولانا فضل الرحمنٰ کو صدارتی امیدوار کے طور پر قبول نہ کرنے کی وجہ بتائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’صدر مملکت‘ کا منصب وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے اور وہ اس منصب کے لئے مولانا فضل الرحمان کو تسلیم کر لیتے تو اس کا مطلب تھا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کے ’ورلڈ ویو‘ کو تسلیم کر لیا ہے۔ جس کا پارٹی کے امیج کو بین الاقوامی سطح پر شدید نقصان ہوتا۔ ایسا ہی خمیازہ پارٹی مولانا محمد خان شیرانی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنا کر بھگتا گیا۔ مولانا محمد علی خان شیرانی کے خواتین اور دوسرے امور پر چیئرمین کی حیثیت سے بیانات کا پی پی پی کو سیاسی نقصان ہوا۔ پی پی پی کے اندرونی حلقوں نے بتایا کہ بیرسٹر اعتزاز احسن کے بارے میں توقع تھی کہ وہ خفیہ بیلٹ میں مولانا فضل الرحمان کے مقابلہ میں دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ممبران اور ایسے ارکان کے لئے زیادہ پرکشش ثابت ہوں گے جو مذہبی پس منظر نہیں رکھتے ہیں۔ تاہم پی پی پی کی یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ پی پی پی کے بعض حلقے توقع کر رہے تھے کہ بیرسٹر اعتزاز احسن پی پی پی کی ’’سٹرینتھ‘‘ سے 30 سے 40 ووٹ زیادہ ملیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور صرف 5 ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں گزشتہ روز صدارتی انتخاب میں حکومت اور اپوزیشن کی قوت کی جو مجموعی صورتحال سامنے آئی ہے وہ مساویانہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے مراحل طے کرنا قطعی ناممکن ہے۔ تحریک انصاف جس طرح کے اعلانات کر چکی ہے اس کے تحت حکومت کو تیزی سے قانون سازی کی ضرورت پیش آئے گی اور اس کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے بھی قانون سازی کرانا ممکن نہیں ہے۔