• news
  • image

جنگ ستمبر کی یادیں .... (۵)

آٹھ صوبوں میں کانگرسی وزارتوں نے مسلمانوں کو مذہبی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی طور پر مفلوج کرنے کی طے شدہ پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ فوری آغاز سکولوں اور کالجوں سے ہوا۔ تعلیم کے لیے و دّیا مندر کھولے گئے جہاں مسلم طلبہ کو بھی جانے پر مجبور کیا جاتا۔ سکولوں میں پڑھائی کا آغاز کانگرس کے جھنڈے کو سلامی دینے اور مسلم کُش گیت’بندے ماترم‘ گانے اور گاندھی کی تصویر کی پوجا سے ہوتا۔ اِس سے مسلم طلبہ میں شدید نفرت کے جذبات پرورش پاتے اور شدید احساس ہوتا کہ وہ ہندو ثقافت میں رنگے جا رہے ہیں۔ اُردو کے بارے میں گاندھی اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں اور ہندوو¿ں کا مشترکہ ورثہ ہے، لیکن اب یہ کہا جانے لگا کہ اُردو قرآنی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اِس لیے یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، جبکہ ہندی ایک قومی زبان ہے جسے تعلیمی اداروں، دفتروں اور عدالتوں میں نافذ کیا جائے گا۔ آٹھوں صوبوں میں گائے ذبح کرنا ایک قانونی جرم قرار پایا۔ مسجدوں میں لوگ نماز پڑھنے آتے، تو شرارت پر آمادہ ہندو ڈھول بجانے لگتے اور اِس قدر شور مچاتے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ اِس کے علاوہ مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہوگئے اور اُن کا مذہب تبدیل کرنے والی دہشت پسند تحریکوںکی حوصلہ افزائی زور پکڑتی گئی۔
ہندوو¿ں اورمسلمانوں کے درمیان امتیازی سلوک کا یہ عالم تھا کہ جن صوبوں میں مسلمان زمیندار تھے، وہاں اُن سے زمینیں چھین لینے کے لیے زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں اور بنگال، جہاں ہندو زمیندار تھے، وہاں کسی بھی نوع کی زرعی اصلاحات نہیں ہونے دیں۔
ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگرسی حکومتوں کا جواذیت ناک تجربہ ہوا، اُس نے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کردیا۔ اکتوبر1937ءمیں مسلم لیگ کا اجلاس لکھنو میں ہوا جس میں وزیرِاعظم پنجاب سراسکندر حیات خاں، وزیرِاعظم بنگال مولوی فضل الحق اور وزیرِاعظم آسام سرمحمد سعداللہ نے مسلم لیگ کے صدر مسٹر جناح کو اپنا لیڈر تسلیم کیا۔ اِس کے بعد مسلم لیگ دن دوگنی رَات چوگنی ترقی کرتی گئی اور اُس کی شاخیں تمام صوبوں میں قائم ہوگئیں۔ کانگرسی قیادت کی مسلم دشمنی میں کمی آنے کے بجائے اُس میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا اور مسلم لیگ سے کشمکش شدت اختیار کرتی گئی۔ مسلم لیگ نے راجہ پیر پور کی سر کردگی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جس کا مقصد اُس صوبوں میں مسلمانوں کی شکایات کی تحقیقات کرنا تھا جہاں کانگرس اقتدار میںتھی۔ پیرپور رِپورٹ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ کانگرسی حکومتیں مسلمانوں کو تہذیبی اور معاشی طور پر منانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ وہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، تو انتظامی مشینری اُن کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ اِسی نتیجے تک بہار میں شریف رپورٹ پہنچی تھی کہ مسلمانوں کو ہندو تہذیب میں جذب کرنے کی ہمہ پہلو کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مسلم قیادت اپنی تہذیب و معاشرت کے تحفظ اور اپنی سیاسی و معاشی بقا کے لیے مختلف منصوبوں پر غور و خوض کر رَہی تھی کہ 1939ءمیں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوگئی اور وائسرائے ہند لارڈ لِنلتھگو نے ہندوستان کی سیاسی قیادت سے مشورہ کیے بغیر جنگ میں ہندوستان کی شمولیت کا اعلان کردیا۔ کانگرس نے فوری آزادی اور اُسے اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ مطالبہ تسلیم نہ ہونے کے باعث کانگرسی وزارتیں آٹھوں صوبوں سے مستعفی ہوگئیں۔ اِ س پر مسٹر جناح نے 22 دسمبر 1939ءکو ’یومِ نجات‘ منانے کا اعلان کیا جو کانگرسی حکومت سے جان چھڑانے کا اظہار تھا۔
تین ماہ بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہورمیں پورے ہندوستان سے آئے ہوئے پچاس ہزار مندوبین نے قراردادِ لاہور منظور کی جسے ہندو پریس نے ’قراردادِ پاکستان‘ سے موسوم کیا۔ اِس میں حکیم اُلامت علامہ اقبال کا 1930ءمیں دیا گیا تصور ایک آئینی فریم ورک اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے پُرجوش مطالبے کی صورت میں پیش کیا گیا۔ بنگال کے وزیرِاعظم مولوی فضل الحق نے قرار دادِ پیش کی اور ہر صوبے سے اُس کی تائید میں تقریریں ہوئیں۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں کہا:
”ہندوو¿ں اورمسلمانوں کا دومختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم ورواج اور آداب سے تعلق ہے۔ وہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں نہ اِکھٹے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہے۔ جن کی اساس متصادم خیالات و تصورات پر اُستوار ہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اورمسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ اُن کی رزم مختلف ہے، ہیروالگ ہیں اور داستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دُوسرے کا دشمن ہوتا ہے۔ اِسی طرح اُن کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔ ایسی دوقوموں کو، جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا نتیجہ بڑھتی ہوئی بے چینی ہوگا اَور بالآخر وہ تانا بانا ہی بکھر جائے گا جو ایسی ریاست کے لیے بنایا جائے گا.... ہمارے دانش ور، اسلام کے خادموں کی حیثیت سے آگے بڑھیں اور اپنے لوگوں کو تعلیمی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی طور پر منظم کریں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسی طاقت بن جائیں گے جسے ہر کوئی تسلیم کرے گا۔
”معروف انداز کے مطابق مسلمانوں کی اقلیت میں نہیں.... بلکہ وہ قوم کی کسی بھی تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں اور اُن کا اپنا وطن، اپنے علاقے اور اپنی ریاست ہونی چاہیے۔ ہم آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوںکے ساتھ امن و آشتی سے رہنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام بھرپور روحانی، ثقافتی، اقتصادی، معاشرتی اورسیاسی زندگی میں ترقی کریں۔ اُس انداز سے جسے ہم بہترین سمجھتے ہیں.... دیانت کا تقاضا ہے اور ہمارے کروڑوں لوگوں کا اہم مفاد ہم پر یہ مقدس فریضہ عائد کرتا ہے کہ ہم ایسا آبرو مندانہ اور پُر امن حل تلاش کریں جو سب کے لیے جائز اور منصفانہ ہو۔
قرارداد لاہور کا مسلمانوں نے پرجوش خیرمقدم کیا، جبکہ ہندو لیڈروں نے اس کی اس انداز سے مخالفت کی کہ ہندوﺅں کے مذہبی جذبات بھڑک اٹھے۔ انہوں نے اسے بھارت ماتا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے مترادف قرار دیا۔ گاندھی جی نے اسے ایک پاپ ، (گناہ) قرار دیا اور مخالفت میں ایک طوفان کھڑا کردیا۔ حالانکہ برطانوی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے 1934ءمیں سفارش کی تھی۔
”ہند میں کئی نسلیں آباد ہیں.... جو اکثر ایک دوسرے سے اپنے مبادیات، روایات اور اسالیب زندگی میں اسی طرح جدا ہیں جس طرح یورپ کی اقوام.... اس کے دو تہائی باشندے ہندومت کے پیروکار ہیں۔ مسلمان سات کروڑ ستر لاکھ سے زائد ہیں۔ ان دونوں کے درمیان فرق سچ پوچھیئے، تو صرف مذہب کا نہیں، بلکہ قانون، ضابطوں اور تہذیب و تمدن کا بھی ہے۔ ان کے بارے میں فی الحقیقت یہ کہاجا سکتا ہے کہ وہ دو علیحدہ تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ (جاری)

epaper

ای پیپر-دی نیشن