• news
  • image

حق و باطل میں فرق کرنے والا

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اللہ رب العز ت نے اسلام کی سعادت عطاء فرمادی ۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء قبول ہوئی۔ مکہ میںایک عمر ابن خطاب تھے اور ایک عمر و بن ہشام ،جو اپنی بد بختی کی بنا پر ابو الحکم سے ابو جہل بن گیا تھا۔ اللہ کے پیارے حبیب علیہ التحیۃ والتسلیم نے ان میں سے ایک اسلام کے لیے مانگا اللہ نے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کا انتخاب کردیا۔ عمر اپنے قبولِ اسلام کے سفرمیں پہلے بہنوئی سعید بن زید کے گھر پہنچے اور وہاں قرآن مقدس کی ضربت کاری سے گھائل ہوگئے تو دارِ ارقم کا رخ کیا اندر موجود لوگوں کو تشویش ہوئی کہ عمر دروازے پر ہیں ، اور ہاتھ میں برہنہ تلوار بھی ہے، خدا خیر کرے! اللہ کے شیر حمزہ (رضی اللہ عنہ ) نے کہا ، اندیشہ نہ کرو دروازہ کھول دو، اگر تو ارادے نیک ہوئے توخیر بصورتِ دیگر اسی کی تلوار سے اس کی گردن نہ اتار دوں تو حمزہ نام نہیں ۔ لیکن عمر کے ارادے بہت ہی نیک تھے۔ اسلام کی سعادت حاصل کی،رسولِ تطہیر وتزکیہ علیہ الصلوٰۃ التحیہ نے اپنا مبارک ہاتھ آپ کے سینہ پر رکھا اور اللہ کی بارگاہِ مقلبِ القلوب میں گزارش کی ،اے اللہ ! یہ عمر ہے ،اس کے سینے میں جو غل وغش ہے اسے نکال دے اور اسے ایمان سے بدل دے ۔ اللہ کے محبوب کی دعاء عمر کی تقدیر ابدی بن گئی۔ قبول اسلام کے فوراً بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں ،یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر ہیں۔آپ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں ،اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بلاشبہ ہم حق پر ہیں،تو پھر اے رسولِ مکرم ! کیوں نہ اسلام کے پیغام حق ہدایت کی تبلیغ کھلم کھلا کی جائے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو پہلی ہی یہ روش تھی ۔ہاں ابھی عام مسلمان اعلانیہ تبلیغ وعبادت انجام نہیں دیتے تھے۔ آپ نے اجازت دی اور فرمایا : ہاں ! اب تم کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ کرسکتے ہو۔ یہ اجازت پاکر مسلمان دوقطاروں میں باہر آگئے ایک کی قیادت حمزہ کر رہے تھے اور دوسرے کی قیادت عمر فرمارہے تھے اور پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلمانوں نے مسجد حرام میں اعلانیہ نماز اداکی ۔اسی دن قاسم خزانہ قدرت نے عمر ابن خطاب کو’’ فاروق ‘‘کے لقب سے سرفراز فرمایا۔’’اللہ نے عمر کے دل اور زبان کو حق سے زینت بخش دی ہے۔وہ ’’فاروق ‘‘ ہے،اور مولا ئے قدوس نے اس کے وجودِ مسعود کے ذریعے حق اور باطل کے درمیان فرق واضح کردیا ہے‘‘۔ مسلمانوں کی مُدّت سے خواہش تھی کہ وہ مسجد حرام میں سجدے کی سعادت حاصل کریں لیکن یہ آرزو اس وقت بارآور ہوئی ، جب عمر اسلام لے آئے۔
جب عمر اسلام لائے تو اسلام کوغلبہ نصیب ہوا، اس کی تبلیغ اعلانیہ شروع ہوئی۔ ہم حلقے باندھ کر کعبہ کے اردگرد بیٹھنے لگے ،بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور زیادتی کا بدلہ لینے کے قابل ہوگئے۔ (صہیب بن سنان )’’حضرت عمر کا اسلام ہمارے لیے فتح مبین تھی۔ آپ کی ہجرت نصر ت الہٰی اور آپ کی خلافت سراپا رحمت ۔ میںنے وہ دن بھی دیکھے ہیں، جب ہم بیت اللہ کے نزدیک نمازادا نہیں کرسکتے تھے ، عمر اسلام لائے تو انھوں نے کفار سے مقابلہ کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھنے کی آزادی دے دی۔(عبداللہ بن مسعود ،ابن سعد ،طبرانی)

epaper

ای پیپر-دی نیشن