پاکستان قائداعظم کے ویژن سے ہٹ چکا‘ ناقص حکمرانی ناانصافی معاشرے کا حصہ بن چکی : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+بی بی سی+ اے این این) پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے نظام کی خرابیاں دور کیے بغیر انصاف کے حصول میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا بدقسمتی سے ملک بانی پاکستان کے وژن سے ہٹ چکا ہے جس کی وجہ سے ناقص حکمرانی اور ناانصافی ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا قانون کی حکمرانی شفافیت اور احتساب کے عمل سے قائد کے وژن پر ملک کو دوبارہ لایا جا سکتا ہے۔ گذشتہ عدالتی سال میں 37 ہزار مقدمات دائر ہوئے جن میں سے 19 ہزار کے فیصلے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ جتنے عرصے میں ان مقدمات کا فیصلہ ہوا اس کی مثال گذشتہ پانچ سال کی عدالتی کارروائی میں بھی نہیں ملتی۔ میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نجی ٹی وی چینلز کو عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر پروگرام نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ ایسا ہونے سے جج اپنا ذہن بنا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا میڈیا کو عدالتی فیصلوں پر تنقید کا حق ہے لیکن ایسی تنقید کا حق میڈیا کو نہیں دیا جاسکتا جسس سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت از خود نوٹس کے بارے میں لوگوں کو شدید قسم کے تحفظات ہیں اور اس معاملے کو فل کورٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو بھی قدم اٹھائیں اس میں دیگر ساتھی ججز کی مشاورت کو بھی شامل کر لیا کریں۔ انہوں نے کہا چیف جسٹس اگلے چار ماہ میں ریٹائر ہو جائیں گے اس لیے ان کی طرف سے کیے گئے اقدامات چاہے وہ اچھے ہوں یا برے لیکن اس میں تسلسل رہنا چاہیے یہ نہ ہو کہ اگلا چیف جسٹس اپنی مرضی کے اقدامات کرنا شروع کر دے۔ انہوں نے اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ترامیم کی جائیں۔ انہوں نے کہا اگرچہ اس میں بار کونسل کا بھی نمائندہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بامقصد مشاورت نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں قائم کی گئی کمیٹی میں سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر جج صاحبان شامل ہیں اس لیے کسی دوسرے کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ورلڈ جسٹس انڈیکس کے مطابق انصاف تک رسائی میں پاکستان 113 ممالک میں 106ویں نمبر پر ہے۔ مقدمات پر اخراجات کو مزید کم کرنا پڑے گا کیونکہ عام عادمی کی دسترس سے اخراجات باہر ہو چکے ہیں۔ اے این این کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہمارے معاشرے میں نا انصافی اور بری حکمرانی سرایت کر گئی ہے اور پاکستان قائد اعظم کے وژن سے ہٹ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے عدالتی سال میں ہمیں اہداف بلند رکھنے ہیں، گزشتہ سال کئی قومی اور انسانی نوعیت کے مقدمات سنے گئے۔ ہم قانون کی حکمرانی اور شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے، ہمیں فراہمی انصاف کیلئے نظام کی خرابیوں کو دور کرنا ہوگا، بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے عدالت نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیمز کی تعمیر کیلئے حکومت کی توجہ دلانا اہم ترین فیصلہ تھا، عوام کے پرجوش رد عمل پر شکر گزار ہیں۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ گزشتہ عدالتی سال میں 19 ہزار مقدمات نمٹائے گئے، یہ شرح گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ ہے، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی عدالت کے بوجھ میں بے حد اضافہ کرتی ہے، زیر التوا مقدمات نمٹانے میں تاخیری حربے بھی رکاوٹ ہیں اور فراہمی انصاف کیلئے زہر قاتل ہیں۔ انہوں نے کہا میڈیا کو تنقید کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی تنقید کی اجازت نہیں جو ججز کی توہین کے مترادف ہو جبکہ وکلا کی زیر التوا مقدمات پر بیان بازی بھی درست عمل نہیں، آرٹیکل 184/3 کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال کے معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ سال 36 ہزار 501 مقدمات دائر ہوئے جن میں سے 28 ہزار 970 نمٹائے گئے، عدلیہ کو اپنی آزادی ہر قیمت پر برقرار رکھنی چاہیے، انصاف ہونا چاہیے چاہے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مستقل طور پر پورے عدالتی سسٹم کو مانیٹر کرنا ہو گا۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ فوری نوعیت کے معاملات کی بھی سماعت نہیں ہو پاتی جس سے فریقین مایوس ہوتے ہیں۔نمائندہ نوائے وقت کے مطابق چیف جسٹس نے کہا پاکستان قائداعظم کے تصورات سے ہٹ گیا، بری حکمرانی اور نااتفاقی معاشرے میں سرایت کر گئی۔ نیٹ نیوز کے مطابق انہوں نے کہا بدقسمتی سے پاکستان قائد کے ویژن سے ہٹ چکا ہے، ناقص حکمرانی، ناانصافی ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔
چیف جسٹس