فردِ فرید (۲)
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا وصال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق بابافرید الدین مسعود کو ان کا جانشین مقرر کیاگیا۔ دلّی اس وقت مسلم برصغیر کا مرکزی شہر بن گیاتھا۔ سلاطین وہلی کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی، شہر میں بہت سے اہل علم وفضل جمع ہوچکے تھے۔ تاتاری یورشوں کی وجہ سے سمر قند ،بخارا اور ماورالنہر کے بہت سے صاحبانِ فضل وکمال دلّی کا رخ کر رہے تھے۔ایسے میں باباصاحب نے اپنے تبلیغی وتربیتی دائرے کو وسعت دینے کا سوچا ،آپ وہاں سے ہجرت کرکے قصبہ ہانسی میں آگئے اورکچھ دن قیام کے بعد آپ نے اجودھن (موجودہ پاکپتن ) کو اپنا مرکز ومستقر بنالیا۔ بہت زیادہ آبادی والے شہرمیں اکثر اوقات جمعیت کی خاطر میسر نہیں آتی اور انسان اپنی مرضی کا لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکتا ہے۔ اجودھن عام گزر گاہ سے ذرا ہٹ کر تھا ۔وہاں تعلیم ،تربیت اور تزکیہ کا پرسکون ماحول میسر تھا۔ لیکن تبلیغی حوالے سے نقل وحرکت کی سہولت یوں موجود تھی کہ ایک تو یہ دریا کے کنارے پر تھا، جو اس زمانے میں ایک ذریعہ نقل وحمل تھا دوسرا اس کے قریب ہی قصبہ دیپال پور،اس وقت کی معروف شاہراہ پر واقع تھا۔ جس پر ہند اور بیرون ہند ہر طرف کے قافلے رواں دواں رہتے تھے۔ آپ کے علاوہ اس خطے میں تین اور معروف مبلغ ،کار خدمت انجام دے رہے تھے۔
حضر ت بہائو الدین زکریاملتان میں، حضرت جلال الدین سرخ بخاری اوچ میں، اور حضرت عثمان المروندی سند ھ میں ،بابا فرید کے ان تمام سے انتہائی گہرے تعلقات تھے اور اکثر یہ چاروں بزرگ مل کر تبلیغی سفر پر جاتا کرتے تھے۔ اللہ رب العز ت نے ان کے سلسلہ تبلیغ میں بے حد برکت عطا ء فرمائی ۔پنجاب کی اکثر اقوام اور قبائل اپنے قبول اسلام کا انتساب آپ ہی کی طرف کرتے ہیں ۔ ان قوموں کی تعداد ستر سے زائد بتائی جاتی ہے۔ تبلیغ کے ساتھ مسلم تہذیب وثقافت کو آپ کی بھر پور علمی اور سماجی شخصیت سے بہت فائد ہ ہوا، آپ نے مقامی زبانوں سے بھی آشنائی پیداکی، بہت سے اشلوک آپ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں، کہاجاتا ہے کہ اردو زبان کا سب سے پہلاکلمہ آپ ہی کی زبان سے ادا ہوا تھا۔ خدمت خلق آپ کا وطیرہ تھا، مزاج میں بے حد نرمی اور ملاطفت تھی۔ ہر آنے والا بلا تکلف اپنا دُکھ آپ سے بیان کرتا اور آپ اس کی ہر ممکن دادرسی فرماتے ۔ بعض اوقات لوگوں کی بپتا آدھی آدھی رات تک دراز ہوجاتی لیکن آپ سب کی سنتے اور فرماتے کسی کہنے والے کے دل میں خلش رہ جائے تو مجھے مصلے پر حضوری کی کیفیت ہی نصیب نہیں ہوتی۔ آپ نے اپنی تربیت سے جو افراد تیار کیے وہ برصغیر کی تاریخ کے روشن آفتاب ثابت ہوئے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ ، حضرت علائوالدین صابر کلیری ،حضرت مخدوم جمال الدین ہانسوی،خواجہ بدر الدین اسحق اور امام علی الحق جیسے لوگ آپ ہی کے حسن تربیت کا شاہکار ہیں۔۵محرم ۶۶۲ھ بروز بدھ واصل بحق ہوئے۔