نئی حکومت پرانی افسرشاہی
افسر شاہی نے وزیراعظم عمران خان کو پہلے مرحلے میں شہ مات دےدی ہے، DMG گروپ آہنی اعصاب کے مالک کپتان خان کا گھیراو¿ کر چکا ہے، بزرگ عشرت حسین ہوں یا ارباب شہزاد’ DMG گروپ ان کےلئے ذات پات’ قبیلے اور اس سے بھی بڑھ مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے پیارے دانیال عزیز بھی اس گروپ کا نام بدل کر پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ ہی رکھ سکے تھے، انہیں کمال صفائی سے پولیس اصلاحات میں الجھا کر وقت برباد کرا دیا گیا اور وہ اپنی جگہ شاد کام ہوگئے‘ وہ تمغہ امتیاز سے نوازے گئے اور TI کہلاتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے گورنمنٹ کالج کے دنوں کے یار غار سے صبح سویرے ملنا پڑا ’شاہانہ طریقے سے بنائی جانے والی خوش ذائقہ کافی کے کپ پر انہوں نے انکشاف کیا کہ پنجاب سے نئے آنے والے“بادشاہ سلامت” 15 ویں کامن سے ہیں جو شہباز شریف کے نفس ناطقہ رہے توانائی کے تمام گھپلوں اور مبینہ لوٹ مار میں صف اوّل کے کاریگر ہیں۔ اب عمران خان کا نیا پاکستان بنانے یا پھر بنیادیں بٹھانے آگئے ہیں۔ ان تقرریوں پر سب سے جامع تبصرہ لاہور کے ایک بزرگ اینکر نے وزیراعظم عمران خان سے براہ راست سوال کرکے کیا۔انہوں نے فرمایا تھا ”جو تقرریاں آپ کر چکے بس فواد حسن فواد کی کمی رہ گئی اسے بھی بلا لیں “ اس پر کپتان کے پاس ایک ہی جواب ہے۔ ”جب میں ان کی سنتاہوں تو ان کے پاس دوسری کہانی ہوتی ہے لیکن پھر بھی میں کسی کے ماضی کا ذمہ دار نہیں، میں ان سب کے حال کا ذمہ دار ہوں آپ بے فکر رہیں ، میں اوپر بیٹھا ہوں، وزیر ہو یا بیوروکریٹ ، ،پرفارمنس دیکھوں گا، اگر کارکردگی ٹھیک نہ ہوئی تو تبدیل کر دوں گا “۔
ایک پرانے خوشامدی کے اس مشورے پر کہ ” آپ کو یواین او جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے جانا چاہئے اور خطاب بھی اردو میں کرنا چاہئے “ وزیراعظم کا جواب تھا ” اس وقت جو ملکی حالات ، میں صرف خطاب کرنے یا صدر ٹرمپ کو ملنے چار دن ضائع نہیں کر سکتا “ایک اور مہربان نے اسلام آباد میں جاری رنگ برنگی بریفنگوں کا حال احوال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کو مائی لیڈر اور منڈیلا ہونے کے وہم میں مبتلا کردینے والے فن کار بھری میٹنگوں میں اشارے کنائیے کرتے اور ایک دوسرے کا منہ چڑاتے ہیں۔ کپتان خان سے ان کی جان جاتی ہے کہ slang انگریزی ان سے بہتر جانتا ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے تاش کے پتوں کی طرح بیوروکریسی کی اپنی ترتیب لگائی ہے۔ اب تک کی تقرریوں اور تبادلوں پر تبصرہ کچھ یوں ہے کہ ’پرانے چہروں کولشکا کر نئی ذمہ داریاں اور کردار دے دئیے گئے ہیں ‘۔ کابینہ کی تشکیل کے بعد بیوروکریسی ہی وہ اصل ٹیم ہوتی ہے جس نے آپ کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرانا ہوتا ہے۔
عمران خان کے وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت کی بیوروکریسی سے چھیڑ چھاڑ کو مایوس کن قرار دیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم تو قیدی ہوتا ہے اور کپتان کو بھی کوئی استثنا نہیں ہے۔ جن وزارتوں میں افسران کی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ان میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، امور کشمیر وگلگت بلتستان، شماریات، پٹرولیم، ریاستیں وسرحدی امور، وفاقی دارالحکومت کے انتظام وانصرام اور ترقی کے ادارہ ’کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن‘ (کیڈ) شامل ہیں جو اسلام آباد کی سیاست کے حوالے سے خاصا اہم محکمہ تصور ہوتا ہے۔
ایک نظر ان افسران پر ڈالتے ہیں جنہیں موجودہ حکومت نے ہٹایا اور نئے چہروں کو اپنایا ہے۔ گریڈ بائیس کے افسر اعجاز منیر کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس (پاس) سے ہے جو ایوی ایشن ڈویژن کے سیکریٹری تعینات تھے، انہیں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ تعینات کیاگیا۔ ان کے پیشرو اورنگزیب حق مزید تقرری کے لئے منتظر ہیں۔ طارق محمود پاشا لینڈریونیو سرس کے افسر ہیںجنہیں شماریات ڈویژن سے وزارت کشمیر و شمالی علاقہ جات بھجوادیاگیا۔ گریڈبائیس کے محمد ایوب شیخ وزارت امور کشمیر وشمالی علاقہ جات سے اب سیکرٹری شماریات کے منصب پر براجمان ہوچکے ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس کے گریڈ بائیس کے افسر ثاقب عزیز کو وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) سے تبدیل کرکے سیکرٹری ایوی ایشن کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پاس) سے تعلق رکھنے والے محمد جلال سکندر کو وزارت پٹرولیم سے ریاستوں وسرحدی امور کی وزارت تبدیل کیاگیا ہے ،جہاں وہ سیکریٹری کے طورپر امور کی نگہبانی پر مامور ہوںگے۔
گریڈ اکیس کے ’ پاس‘ سے تعلق رکھنے والے ایک اور افسر اسدحیاءالدین افسر بکار خاص یعنی او۔ایس۔ڈی یا پھر ’کھڈے لائن‘ تھے جنہیں وزارت پٹرولیم کا بطور سیکریٹری انچارج کا اختیار مل گیا ہے۔ وہ ایڈیشنل سیکریٹری ہوں گے لیکن اختیار سیکرٹری کا استعمال کریں گے۔ وزارت پٹرولیم میں ایڈیشنل سیکریٹری گریڈ اکیس کے حسن ناصر جامی کو سپیشل سیکریٹری بنا کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھجوادیاگیا۔گریڈ انیس کے افسر محمد طارق کو خیبرپختونخوا حکومت سے تبدیل کرکے وزیراعظم آفس میں جوائنٹ سیکرٹری تعینات کیاگیا ہے۔ نجکاری ڈویژن کے سیکریٹری عرفان علی جو گریڈ بائیس کے افسر ہیں، پاور ڈویژن تبدیل کردئیے گئے۔ پاورڈویژن کے سیکریٹری کے طورپر امور انجام دینے والے رضوان میمن کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھجوادیاگیا۔
پنجاب میں بیوروکریسی کے حوالے سے پہلے ہی اچھی خبریں نہیں آرہیں۔ خاور مانیکا والا معاملہ ہو یا پھر دریشک صاحب کی بارڈر پولیس میں بھرتیوں کی پھرتیاں اور ڈی سی کا کمشنر کو خط، حکومت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت نے صلاح الدین محسود کو آئی جی خیبرپختونخوا اورسید کلیم امام کو آئی جی سندھ مقرر کیا ہے۔ محمد طاہر کو سربراہ پنجاب پولیس تعینات کیا گیا ہے۔ آئی جی سندھ امجد جاوید سلیمی کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ آئی جی پنجاب مقرر ہونے والے محمد طاہر خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ صلاح الدین محسود بھی قبل ازیں آئی جی خیبرپختونخوا پولیس کے طورپر کام کرچکے ہیں۔کلیم امام نے سیاسی مداخلت کی جانچ پڑتال کئے بنا ہی ڈی پی او پاک پتن کا تبادلہ کر دیا تھا۔ پنجاب کے چیف سیکرٹری اکبر درانی نے دو ڈپٹی کمشنرز کی شکایات پر جو انداز اور جو رویہ اپنا یا سول بیوروکریسی میں اکثر کی رائے میں مایوس کن رہا۔ آئی جی اور چیف سیکرٹری کے روئیے نے سرکاری ملازمین کو منفی پیغام دیا۔ جن کا خیال تھا کہ اب وہ سیاسی چنگل سے آزاد ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت دو ڈپٹی کمشنرز کے خلاف نظم وضبط کے تحت سخت کارروائی کرنے کا ارداہ رکھتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر چکوال کے چیف الیکشن کمشنر، سپریم کورٹ اور چیف سیکرٹری کو تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی کی سرکاری امور میں مبینہ سیاسی مداخلت کے خطوط موصول ہو گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر راجن پور کے بارے میں بھی ایسی ہی رپورٹ ہے۔ بیورو کریٹس کو سیاسی دبا¶ سے پاک کرنا جاں جوکھوں مرحلہ ہوگا ۔
حکمراں جماعت کا رکن قومی اسمبلی بھی متبرک ٹھہرا۔ چکوال اور راجن پور اضلاع میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کہاجارہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کوخطوط لکھ کر ڈپٹی کمشنرز نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔جب چیف جسٹس نوٹس لے چکے تو انہی پر یہ معاملہ چھوڑ دینا مناسب ہوگا۔ یہ پہلو اہم ہے کہ ان واقعات کے نتیجے میں بیوروکریسی سیاسی آلودگی سے پاک ہوئی یا مزید اس اثر میں رنگ چکی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اکبر درانی نے ڈپٹی کمشنرز کے واقعات رونما ہونے کے بعد تمام انتظامی سیکرٹریز، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز سے اسکائپ پر منعقدہ اجلاس میں”چین آف کمانڈ“ کے احترام کی ہدایت کی اور سرکاری ملازمین کو متعلقہ علاقوں کے سیاستدانوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کا کہا اس پر بھی تنقید جاری ہے کہ تبدیلی کے ترجمان کے بجائے روایتی سیاسی انداز اپنایا جو ماضی میں ہم نے کڑاکے کڈ دیاں گے کا پنجابی اظہار دیکھا اور بھگتا ہے، انصاف لائرز فورم کے صدر غلام مصطفیٰ چوہان کی پریس کانفرنس بھی دلچسپی سے خالی نہیں جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملتان اور بہاولپور بنچ میں جنوبی پنجاب سے ہی لا افسران تعینات کئے جائیں۔
ایک واقعہ جناب آصف زرداری کی صدارت کا یاد آگیا جس پر اس وقت خاصی لے دے ہوئی تھی۔ پنجاب میں لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کے سیکریٹری جہانزیب خان کو2009 میں فرانس میں سفیر لگانے کا فیصلہ ہوا تو فرانس حکومت کی بے چینی سے متعلق خبریں چھپ گئیں۔ جہانزیب خان گریڈ بیس کے مڈل لیول کے سول سرونٹ اور ڈی۔ایم۔جی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس وقت کہاگیا کہ ’اگر حکومت پنیر تیار کرنے کی مہارت فرانس سے حاصل کرنا چاہتی ہے تو پھر یہ فیصلہ نہایت دانشمندانہ ہے‘۔ فرانس والے اس تقرری پر حیراں وپریشاں ہیں کہ وہ چاروناچار یہ فیصلہ قبول کریں، تاخیر کریں یا پھر یہ تعیناتی مسترد کردیں۔ اگر یہ تعیناتی واپس لے لی جائے تب بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں رخنہ اندازی آچکی تھی۔ تقرری واپس نہ ہونے پر نتائج سوچے جاسکتے تھے۔
راز سے پردہ یوں اٹھا کہ موصوف کی تقرری پیرس میں ایک پاکستانی نژاد فیشن ڈیزائنر کی سفارش پر ہوئی، جہاں صدر مملکت نے قدم رنجہ فرمایا تھا۔ اس وقت یہ منطق پیش کی گئی کہ فرانس میں تعینات ہونے والے نئے سفیر کے اس وقت کے فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کے بھائی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جس سے پاکستان اور فرانس کے تعلقات میں قربت آئےگی۔ نئے پاکستان میں یہ صاحب ٹیکس کے بادشاہ بن کر نمودار ہو ئے ہیں۔