کلثوم نواز ۔جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
محترمہ بےگم کلثوم نواز شرےف صاحبہ کی آپ بےتی ”جبر اور جمہورےت“ کے عنوان سے 2007ءمےں شائع ہوئی۔ ےہ کتاب ان کے داماد کےپٹن (ر) محمد صفدر کی دلچسپی اور توجہ کے بعد منظرعام پر آئی۔ اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نواز شرےف کو اکتوبر 1999ءکے بعد سے اب تک تقرےباً اےک جےسے حالات کا ہی سامنا رہا ہے جن مےں غاصب طاقتوں کا غےظ و غضب اور وفاداری کی قسمےں کھانے والے ساتھےوں کی بے وفائی سمےت پارٹی مےں پھوٹ ڈالنے کی کوششےں شامل رہی ہےں۔ مثلاً جنرل پروےز مشرف کے مارشل لاءکے بعد شرےف خاندان کی خواتےن کو تقرےباً اےک سال تک نظربند رکھنے کے بعد جب رہائی دی گئی تو اُس وقت نواز شرےف لانڈھی جےل کراچی مےں قےد تھے۔ بےگم کلثوم نواز شرےف رہائی کے بعد نواز شرےف سے جےل مےں اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہےں کہ ”نظربندی کے اختتام پر مےں، مےری دونوں بےٹےاں اور ساس کراچی پہنچے اور اگلے روز 22 نومبر کو ہماری نواز شرےف صاحب سے ملاقات کروائی گئی۔ مےری نظر مےاں صاحب پر پڑی تو مےں نے دےکھا کہ حالات کی سختےاں ان کے اعضاءو جوارح سے صاف نظر آرہی تھےں مگر ان بدترےن حالات کے باوجود ان کے مزاج کی لطافت اور بلندہمتی اپنی جگہ پر قائم تھی۔ انہوں نے ہم سے بالکل عمومی حالات کی طرح خےرےت درےافت کی۔ بچےوں کے برستے آنسوﺅں کو دےکھ کر حوصلے سے کام لےنے کی تلقےن کرتے رہے۔ ان کا چہرہ اس امر کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ آئےن کی بالادستی کے لئے ان بدترےن حالات کے لئے پہلے سے ہی تےار تھے۔ ہم سب کا اس وقت تو فرط جذبات سے برا حال ہوگےا جب مےرے نواسے، جو مےاں صاحب کی گود مےں تھا، نے ملاقات کے آخر مےں اترنے سے انکار کرکے رورو کر اپنا برا حال کرلےا مگر مےاں صاحب ہم سب کو تسلی دےتے رہے کہ حق کے راستے مےں کربلا، کوفہ اور شام آتے ہےں مگر قافلہ حق رکتا نہےں بلکہ منزل کی جانب رواں دواں رہتا ہے اور ہمےں بھی ان جنت کی مالک پاک ہستےوں کے نقش قدم پر چلنا ہے کہ جن کی گرد راہ ہونا بھی جنت کی دھول سے کم نہےں“۔ مصےبت کے اِنہی دنوں مےں بےگم صاحبہ نے اپنی والدہ کے انتقال کے حالات پر لکھا کہ ”ابھی تو مجھ سے مےرے والد کا ساےہ شفقت جدا ہوا تھا کہ 15 دسمبر کو ماں کی مامتا سے بھی سدا کی جدائی ہوگئی اور مےں اپنے آپ کو ان لمحوں مےں اس بچے کی طرح محسوس کرنے لگی جو کارواں سے کسی جنگل بےاباں مےں بچھڑ جائے۔ ہم نے مشرف کے نمائندہ سے رابطہ کرکے کہا کہ مےاں صاحب اور شہباز بھائی کو کم از کم جنازے مےں ہی شرکت کرنے کی اجازت دے دو مگر ادھر سے سوائے سنگدلانہ طرز عمل کے اور کچھ نہ تھا۔ چنانچہ ان دونوں حضرات کو جنازے مےں شرکت سے محروم رکھا گےا مگر اپنی خجالت پر پردہ ڈالنے کی غرض سے جنازے کے بعد تھوڑی دےر کے لئے شدےد پابندےوں کے ساتھ دونوں بھائےوں کو ےہ لوگ لے کر آگئے۔ وقت اسی طرح گزرتا چلا گےا۔ اسی دوران مےں پاسپورٹ کی ضبطی کے سبب دےگر اہلخانہ کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہی۔ مےری حددرجہ کوشش کے باوجود مجھے پاسپورٹ نہ مل سکا۔ عےد آئی جس مےں نواز شرےف اور مےرے بےٹے حسےن کو نماز عےد بھی ادا نہ کرنے دی گئی“۔ اس کتاب مےں بےگم صاحبہ اُس وقت کے وفادار پارٹی رہنماﺅں کی مشرف مارشل لاءکی آمد پر خوشی، نواز شرےف کو دغا دے کر وزےراعظم بننے کے خواب دےکھنے والوں اور نواز شرےف کے پاکستان اور جمہورےت کی استقامت کے عزم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہےں کہ ”مےں اس امر پر سخت متعجب تھی کہ 12 اکتوبر کے بالکل اگلے روز ہی اعجاز الحق نے بےان دےا تھا جس سے ان کی فوجی اقدام پر خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی اور ےہ صرف ان ہی تک محدود نہ تھا بلکہ کچھ دےگر افراد بھی پروےز مشرف کے سامنے نمبر بنانے کی دوڑ مےں صاف نظر آرہے تھے اور ان لوگوں کی سرگرمےاں تو مےاں اظہر کے گھر 9نومبر کو ہونے والے اجلاس مےں ہی طشت ازبام ہوگئی تھےں“۔ بےگم صاحبہ نے اےک جگہ لکھا کہ ”کراچی سے واپسی پر چوہدری شجاعت حسےن بھی ہمارے ساتھ جہاز مےں تھے۔ ان سے اس سے پہلے کراچی مےں ملاقات ہوچکی تھی۔ انہوں نے کراچی مےں بھی اور دوران سفر بھی پارٹی قےادت کے حوالے سے مےرے خےالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے متواتر اسی موضوع کو زےربحث رکھا۔ مےں نے ان کو صاف بتا دےا کہ مےں پارٹی کی قےادت تو کجا مستقلاً سےاست مےں رہنے کی بھی خواہش مند نہےں ہوں۔ چوہدری شجاعت نے مےری فےصلہ کن انداز کی گفتگو کو بڑے غور سے سنا اور غالباً دل مےں اس سے نتائج اخذ کرتے رہے“۔ کتاب مےں تحرےر ہے کہ ©©©”مےاں اظہر، اعجاز الحق اور خورشےد قصوری نے 11 فروری کو کھانے پر ملاقات کی۔ ان تمام ملاقاتوں اور اس کے بعد پےش کئے جانے والے تاثر کا صرف اےک ہی مقصد ہوتا تھا کہ ہم پروےز مشرف کی بی ٹےم بن سکتے ہےں اور مسلم لےگ مےں آمرےت کی حسب خواہش پھوٹ ڈالنے کا فرےضہ سرانجام دے سکتے ہےں“۔ کتاب مےں تحرےر ہے کہ ”جہاں مےں بدستور پارٹی کے مختلف عہدے داروں کو قےادت کے پےغامات اور خےالات سے آگاہ کر رہی تھی وہےں پر مےرا ذہن ےوتھ ونگ کے اےک باقاعدہ اجلاس کے انعقاد کی جانب بھی تھا۔ چنانچہ 21 فروری کو مسلم لےگ ہاﺅس مےں ےوتھ ونگ کے اجلاس مےں شرکت کی اور ان کے سامنے مےاں صاحب کا مافی الضمےر پےش کےا تاکہ قوم کے ےہ بچے جان سکےں کہ موجودہ حالات مےں بھی قےادت اصولوں پر کسی تجارت کے لئے تےار نہےں ہے۔ اس سے اگلے دن مسلم لےگ ہاﺅس مےں ہی صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان کا اےک اجلاس ہوا جس مےں تمام ارکان تو نہ آئے مگر آنے والے اکثر افراد کی زبان پر ےہ الفاظ ضرور موجود تھے کہ اگر مےاں صاحب حکم دےں تو ہم فوراً احتجاجی تحرےک کا آغاز کردےں مگر مےاں صاحب کی ےہ ہداےت تھی کہ چاہے حالات بدتر سے بدترےن کےوں نہ ہو جائےں مگر ہمےں رےاستی اداروں اور غاصبوں کے درمےان حدفاصل کا خےال رکھنا ہے اور ہمارا ٹکراﺅ غاصبوں سے ہے، رےاستی اداروں سے نہےں۔ پارٹی مےں خلفشار کو روکنے کے لئے نواز شرےف صاحب اور راجہ ظفر الحق ابھی تک تگ و دو مےں لگے ہوئے تھے۔ چنانچہ راجہ ظفر الحق نے معاملات کو حل کرنے کے لئے اےک پانچ رکنی مصالحتی کمےٹی قائم کی جس کے ارکان وسےم سجاد، الہٰی بخش سومرو، گوہر اےوب، سرتاج عزےز اور ممنون حسےن تھے“۔ محترمہ بےگم کلثوم نواز شرےف صاحبہ نے جنرل مشرف کے مارشل لاءکے دوران نواز شرےف کی قےدوبند اور پارٹی کی صورتحال کو کتابی صورت مےں محفوظ کردےا۔ تارےخ کو کتابی صورت بنانے والی صورت اب دنےا سے چلی گئی۔ نواز شرےف اور پارٹی کی موجودہ قےد و بند اور پارٹی کی موجودہ صورتحال کو کتابی صورت مےں کےا اب کوئی لائے گا؟ ےہ اےک نفسےاتی حقےقت ہے کہ مرنے والا موت کے وقت اپنے عزےزوں کو اپنے پاس دےکھنا چاہتا ہے۔ اس نفسےاتی کےفےت کا احترام صدےوں سے کےا جاتا آرہا ہے۔ مثلاً سقراط کو جس صبح زہر کا پےالہ دےا گےا اُس آخری رات اس کے بےوی بچے اس کی چار پائی کے پاس موجود تھے۔ شاےد اسی لئے پھانسی چڑھنے والے کی بھی آخری ملاقات اس کے قرےبی عزےزوں سے کروائی جاتی ہے ۔ مارشل لاءڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی آخری ملاقات ان کی بیٹی اور اہلیہ سے کروائی تھی لےکن بےگم کلثوم نواز شرےف کی موت کے وقت ان کی بےٹی اور ان کے شوہر کو ان سے ہزاروں مےل دور جےل مےں بند رکھا گےا۔