• news
  • image

نئے ڈیموں کی تعمیر، چیف جسٹس پاکستان اور وزیراعظم

پانی نے انسانی ترقی اور ارتقاءمےں ہمےشہ سے اہم کردار ادا کےا ہے۔ تارےخ گواہ ہے کہ دنےا کی تمام بڑی تہذےبو ں نے پانی ہی کے کنارے جنم لےا اور ےہےں پروان چڑھےں۔ دنےا کے تمام بڑے درےاو¿ں نے اپنے پانی سے انسانےت و ماحول کی خدمت کی اور تہذےبوں کے ارتقاءمےں مدد فراہم کی۔ آج دنےا بھر کی معےشت پانی ہی کا طواف کر رہی ہے اسی لئے آج کل معاشےات کے شعبے مےں آب برائے معاشی ترقی ےعنی "واٹر اکانومی" جےسی اصطلاح کا مطلب در اصل معےشت کے تمام شعبوں کی ترقی کے لئے پانی کے وسائل کو استعمال کرنا ہے۔ لےکن ہمارے ہاں اس کے ساتھ حکومتوں اور عوام دونوں کا روےہ عدم توجہ کا رہا ہے۔ پانی کی سٹورےج کے لئے مناسب سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال کروڑوںمکعب مےٹر پانی بے کار چلا جاتا جب کہ سالانہ پانی کی فراہمی فی کس چےن، ہندوستان، برازےل اور جنوبی افرےقہ جےسے ترقی پزےر ملکوں سے بہت کم ہے۔ پاکستان کی فی کس پانی ذخےرہ کرنے کی گنجائش 73کےوبک مےٹر ہے۔ جب کہ مختلف ملکوں کی ذخےرہ کرنے کی گنجائش کے مطابق بھارت مےں فی کس پانی کا ذخےرہ 209مکعب مےٹر ہے جب کہ چےن مےں اےک شخص کے لئے 416مکعب مےٹر پانی مےسر ہے۔ 1971ءمےں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دےش بننے والے ملک مےں ےہ شرح 141 مکعب مےٹر ہے۔ جب کہ افرےقی ملک اےتھوپےا مےں 67مکعب مےٹر ہے۔ ناروے مےں فی کس پانی کی فراہمی سب سے زےادہ 8036مکعب مےٹر ہے۔ اس فہرست مےں دوسرے نمبر پر روس، آسٹرےلےا تےسرے نمبر، ترقی ےافتہ ملک برازےل چوتھے اور امرےکہ پانچوےں نمبر پر ہے۔ جب کہ چےن آٹھوےں اور بھارت نوےں نمبر پر ہے۔
ماہرےن کا کہنا ہے کہ کسی ملک کی پانی کی دستےابی اور اس کی جی ڈی پی کے درمےان گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ڈےم نہ بنائے گئے ےا سٹورےج کےپےسٹی نہ بڑھائی تو 2025ءتک پاکستان مےں پانی کا مسئلہ سنگےن تر ہو سکتا ہے۔ انٹر نےشنل مونےٹری فنڈ کی اےک تازہ رپورٹ کے مطابق پانی کی سخت قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی عالمی فہرست مےں پاکستان کا نمبر تےسرا ہے۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے ادارے ےو اےن ڈی پی اور آبی ذخائر کے لئے پاکستانی کونسل برائے تحقےق نے بھی خبردار کےا ہے کہ 2025ءتک ےہ جنوب اےشےائی ملک پانی کے شدےد بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لئے اقوامِ متحدہ کے ہےومےنےٹےرےن کوآرڈےنےٹر نےل بوہنے کے مطابق پانے کے اس بحران کی وجہ سے پاکستان کا کوئی علاقہ نہےں بچ سکے گا۔ محققےن نے اےسے اندازے بھی لگائے ہےں کہ 2040ءتک شہرےوں کی پانی کی طلب کو پورا کرنے کے حوالے سے پاکستان شدےد مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ماحولےاتی تبدےلےاں، پانی کی ناقص مےنجمنٹ اور سےاسی عزم کی کمی نے اس معاملے کو زےادہ شدےد کر دےا ہے۔ موسمےاتی تبدےلےوں کے نتےجے مےں عالمی سطح پر حدت مےں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان مےں گرمی کی لہروں اور قحطوں کی وجہ ماحولےاتی تبدےلےاں ہی ہےں۔ ےہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے مون سون کے موسم کی پےشےن گوئی مشکل ہو گئی ہے جب کہ ملک کے کئی علاقوں مےں موسمِ سرما مختصر ہو گےا ہے۔ ارسا ( انڈس رےور سسٹم اتھارٹی) کے مطابق پاکستان کے دو بڑے آبی ذخائر ےعنی منگلا اور تربیلہ ڈےموں مےں پانی صرف تےس دن کی ضرورت کے لئے ہی ذخےرہ کےا جا سکتا ہے جب کہ بھارت 100 دنوں تک کے استعمال کے لئے اپنی سٹور کر سکتا ہے۔ پاکستان مےں صرف 185آبی ذخائر ہےںجب کہ ہمارے مقابلے مےں بھارت مےں 5000، چےن مےں 84000 ڈےم ہےں۔ جنوبی اےشےائی امور کے ماہر مےشائل کوگلمان کے مطابق پاکستان مےں پانی کا بحران جزوی طور پر انسانوں کی طرف سے ہی پےدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی رہنماو¿ں اور فرےقےن کو اس چےلنج سے نمٹنے کی خاطر ذمہ داری اٹھانا ہو گی اور سےاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کوگلمان نے اصرار کےا ہے کہ اس بحران کی ذمہ داری اےک دوسرے پر ڈالنے سے اسے حل نہےں کےا جا سکتا۔ ماہرےن نے خبردار کےا ہے کہ آنے والے برسوں مےں بالائی علاقوں مےں واقع گلےشئر درجہ حرارت بڑھنے سے تےزی سے پگھلےں گے لےکن پانی ذخےرہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث مون سون کی طرح ےہ پانی بھی ہمےں کچھ فائدہ پہنچائے بغےر سمندر کی نظر ہو جائے گا اےسے مےں سےلابوں کا احتمال بھی خارج از امکان نہےں۔ ماہرےن کی ان باتوں کو مزےد نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی ۔ اس وقت درےائے جہلم، چناب، راوی اور ستلج پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ جس سے ممکنہ پانی بھی ہمےں مےسر نہےں ہو رہا ہے ۔ صرف اےک درےائے سندھ جس پر ذخےرہ آب اور کثےر مقدار مےں بجلی بنانے کا منصوبہ بناےا گےا تھا جو سےاست کی نظر ہو گےا۔ ملک مےں واٹر اےمر جنسی کے تحت پانی کے استعمال مےں کفاےت شعاری اور زےادہ سے زےادہ ذخائر ہنگامی بنےادوں پر تعمےر کئے جانے وقت کی ناگزےر ضرورت ہے۔کسی حکومت نے پانی کے تحفظ کے لئے کبھی کوئی خاص اقدامات نہےں کئے، موجودہ حکومت اور چےف جسٹس پاکستان نے اس حوالے سے کوششےں شروع کی ہےں۔ چےف جسٹس پاکستان اور وزےرِاعظم عمران خان نے بےرونِ ملک و اندرونِ ملک لوگوں سے چندے کی اپےل کی ہے۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کو بھےک سے تشبےہ دی جا رہی ہے اور جو کشکول بےرونی دنےا کے سامنے پھےلائے جاتے ہےں اس مےں کوئی حرج نہےں ہے۔ اگر اپنے اہلِ وطن سے اپےل کی جائے تو وہ بھےک کے زمرے مےں آ جاتی ہے۔ لےکن ہمارے اندرون و بےرون ملک مقےم پاکستانےوں نے اپنی عظےم رواےت کو قائم رکھا ہے اور اےک بار پھر پانی کے متوقع بحران مےں سر دھڑ کی بازی لگانا شروع کر دی ہے اور دھڑا دھڑ فنڈز اکٹھے ہونا شروع ہو گئے ہےں۔ چےف جسٹس اور وزےرِ اعظم کی اپےل پر جس طرح پوری قوم اورقومی اداروں نے ڈےم کے لئے رقم کی فراہمی مےں بڑھ چڑھ کر حصہ لےا ہے اس سے اےک مضبوط اور اےسی قوم ہونے کا تاثر ملتا ہے جسے اپنے مسائل کا ادراک ہے اور ان کو حل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن