ڈیم فنڈ اور قوم کا عزم
پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج پانی کے بحران پر قابو پانا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان اور خصوصاً پنجاب کی بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعت و زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پانی درکار ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لئے جہاں درخت لگانا بہت ضروری ہیں وہیں ملک میں ڈیموں کی اشد ضرورت ہے۔ ڈیم اس وقت قومی ضرورت بن گئے ہیں کیوں کہ یہ پانی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں سستی بجلی کے حصول میں بھی ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ موجودہ حکومت کا اس حوالے سے ڈیم فنڈ قائم کرنا نہایت قابلِ تحسین ہے۔ اس حوالے سے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ جلد از جلد یہ منصوبہ پایہ¿ تکمیل کو پہنچ کر ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکے۔
ہر شے کا دارومدار پانی پر ہے۔ پانی کسی نہ کسی طرح ہماری خوراک کی ہر شے میں شامل ہوتا ہے۔ پانی نہ ہو تو زندگی کا تصور ناممکن ہو جائے۔ ہمارے جسم کا زیادہ تر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ ہر طرح کی غلاظت پانی سے صاف ہوتی ہے اس طرح پانی طہارت کا ذریعہ ہے۔ یہ زندگی کی علامت ہے۔ کائنات شروع میں پانی پر مشتمل تھی۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا پھر انسانوں اور حیوانوں کے رہنے کے لئے جزیرے وجود میں آئے اور خشکی پر بستیاں بننے لگیں۔ پنجاب کو پانچ دریاﺅں کی نسبت سے پنج آب کہا جاتا ہے۔ یہ دریاﺅں کی سرزمین ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ دریاﺅں کے کنارے گاﺅں اور شہر آباد کرتے تھے کیوں کہ پانی سب کی بنیادی ضرورت تھا۔ پنجاب میں بھی ہمیں تمام پرانے شہر، قصبے اور گاﺅں دریاﺅں کے کنارے نظر آتے ہیں۔ دریاﺅں کے کنارے آباد ہونے والی بستیوں کا اک خاص کلچر ہوتا ہے۔ پانی ذرائع آمد و رفت کا بھی ذریعہ تھا۔ لوگ کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان لے جاتے تھے۔ یوں پانی کی افادیت کئی حوالوں سے مسلم ہے۔ اگر ہم آج کے پنجاب پر غور کریں تو ہمیں وہ سبزہ اور ہریالی مفقود نظر آتی ہے جو کبھی اس کی شان تھی۔ ہمارا راوی سوکھا پڑا ہے۔ ستلج اداس ہے۔ اگرچہ چناب سے جڑی کہانی ابھی تک زندہ اور تازہ ہے مگر وہ خود اُجڑا ہوا ہے۔ چناب ایک دریا نہیں ایک تاریخ کا نام ہے۔ اس کے ساتھ رومانویت کے علاوہ سیاسی اور تاریخی حوالے بھی موجود ہیں۔ یہی حال باقی دریاﺅں کا بھی ہے۔ ان کے کنارے بیٹھیں تو یہ دکھ بھری داستانیں سنانے لگتے ہیں کیوں کہ ان کے اجڑنے کے پیچھے بھی انسانی کاوش شامل ہے۔ انسان کا بے مہر رویہ اور نظر انداز کرنے کی روش انہیں اس حال تک لے آئی ہے۔ کتنے سالوں سے ماہرین پانی کی کمی کا رونا رو رہے تھے۔ خود لاہور میں اس حوالے سے کئی بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار منعقد ہوئے جس میں یہ بتایا گیا کہ پانی کا مسئلہ اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ دنیا میں اگلی جنگ تیل کی بجائے پانی کی وجہ سے ہو گی لیکن اس تمام وارننگ کے باوجود نہ حکومت کے سر پر جوں رینگی نہ عوام نے کوئی نوٹس لیا۔ بھلا ہو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب کا جنہوں نے اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کی اور انہیں اپنا فرض نبھانے کی طرف راغب کیا۔ پاک فوج نے پہل کرتے ہوئے اپنی تنخواہیں دے کر یہ پیغام دیا کہ یہ مسئلہ ناگزیر ہے اور ہم سب کو اسے مل کر حل کرنا ہے۔ پاکستانی قوم اگر کوئی کام کرنے کی نیت کر لے اور اسے یقین ہو جائے کہ اس کے رہنما اس حوالے سے مخلص ہیں تو وہ دریا دلی کی اخیر کر دیتی ہے۔ ڈیم فنڈ میں بھی یہی ہوا۔ لوگوں نے جوش و خروش سے اس فنڈ میں پیسے جمع کرانے شروع کئے۔ وزیراعظم عمران خان کی اپیل کے بعد ایک دن میں اربوں روپے اکٹھے ہوئے۔ اب تک تقریباً پانچ ارب روپے جمع ہو چکے ہیں جب کہ ڈیم بنانے کے لئے ہمیں 1600 ارب روپوں کی ضرورت ہے اس لئے حکومت مزید اقدامات کے بارے سوچ رہی ہے جس میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ڈونرز کانفرنسز منعقد کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ پاکستان میں مخیر حضرات کی کمی نہیں اور نہ ہی وطن کی خاطر دولت قربان کرنے والوں کی کمی ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ہم آئندہ چند مہینوں میں مطلوبہ رقم جمع کر کے دنیا کو ایک قوم بن کر دکھائیں گے۔ ذرا سوچیں اگر پانی نہ ہو تو ہمارا کیا حال ہو؟ ہماری زمینیں سوکھ جائیں، ہمارے درخت کملا جائیں، ہمارے وجود بے جان ہو جائیں۔ اس سے پہلے کہ یہ سب ہو ہمیں اپنا دفاع کرنا ہے۔ اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو سرسبز رکھنا ہے۔ سبزہ ہی زندگی ہے اور سبزے کی خوراک بھی پانی ہے۔ لوگ انفرادی طور پر بھی فنڈز جمع کرا رہے ہیں اور مختلف محکمے اجتماعی طور پر اس کارِ خیر میں حصہ ڈال رہے ہیں جیسے پاک فوج اب نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کی طرف سے ڈیم فنڈ میں 30لاکھ جمع کرانا قابل تقلید مثال ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس اقدام کی بھرپور تحسین کی اور امید ظاہر کی کہ باقی میڈیکل کالج بھی وقت کی آواز کو سن کر لبیک کہیں گے۔ اس سلسلے میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔ محکمہ تعلیم کو پورے صوبے میں طلباءو طالبات کو نہ صرف خود فنڈ دینے کی طرف راغب کرنا چاہئے معاشرے میں آگاہی پھیلانے کی ذمہ داری بھی سونپنی چاہئے۔ تمام سرکاری محکموں اور نجی اداروں کی طرف سے ڈیم تعمیر فنڈ میں دل کھول کر عطیات جمع کرانے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر پاکستانی ملک کو پانی کے ممکنہ بحران سے بچانے کا عزم رکھتا ہے۔