• news

سیاسی تقرری پر مداخلت کرینگے‘ پانی سونا بن گیا اب مفت نہیں ملے گا : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے آبیانہ کی رقم کے تعین سے متعلق کیس میں دو رکنی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا‘ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا پانی کے معاملے پر کمیٹی بنا رہے ہیں۔ جمعہ کو سپریم کورٹ میں آبیانہ کی رقم کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا پانی کی قیمت کے تعین کا طریقہ کار کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پانی کے معاملے پر کمیٹی بنا رہے ہیں۔ کمیٹی میں مخدوم علی خان اور سلمان اسلم بٹ شامل ہوں گے۔ دو ارب روپے واجبات سے کم وصولیاں ہوئی ہیں۔ عدالت نے ریماکس دیئے آبیانہ کی رقم فی ایکڑ 1500 سالانہ کردی جائے تو 67 ارب وصول ہوں گے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا ہمارا نہری نظام اچھا نہیں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا دیکھنا یہ ہے کہ معاملہ کیا ہے اور کیا پالیسی بنانی ہے۔ بیٹھ کر سفارشات تیار کرلیں تمام سیکرٹریز آبپاشی کو بلا لیتے ہیں صدر سپریم کورٹ بار بھی کمیٹی کے ممبر ہوں گے۔ عدالت نے حکم دیا لاءاینڈ جسٹس کمشن معاملہ پر ورکشاپ کا انعقاد کرے۔ عدالت نے تمام صوبائی سیکرٹریز آبپاشی کو نوٹسز جاری کر دیئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ورکشاپ کے ٹی او آرز تیار کئے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا سفارشات تیار کر کے حکومت کو دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا تمام سیکرٹریز اور فریقین کی میٹنگ بلا کر کوئی قرارداد تیار کر لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سیمنٹ فیکٹریوں میں ریورس اوس موسس پلانٹس لگانے کی ہدایت کر دی جبکہ سیمنٹ فیکٹریوں کی جانب سے پانی کی قیمت ادا کر نے سے متعلق منگل تک رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ پانی اب مفت نہیں ملنا، یہ سونے کی چیز بن گئی ہے‘سیکرٹری بلدیات رات 12 بجے تک کام کریں‘ یہ کام دفاترمیں بیٹھ کرنہیں ہوتے، جوگرپہن کر باہر نکلیں، فائلیں گھر لے جائیں، کام نہیں کرنا تو پھر چھوڑ دیں، ایسے کام نہیں چلے گا۔ پنجاب کی تمام سیمنٹ فیکٹریوں کی صورتحال معلوم کریں۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے کٹاس راج مندر کا تالاب خشک ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیمنٹ فیکٹریوں نے متبادل پانی کا انتظام کرنا تھا، فیکٹریوں کے زیراستعمال پانی کانرخ طے کیا گیا یا نہیں؟، ڈی جی ماحولیات پنجاب نے بتایا کہ فیکٹریوں کو مانیٹرکررہے ہیں۔ سیکرٹری بلدیات نے کہا کہ ڈی جی خان اوربیسٹ وے فیکٹری کی حد تک ریٹ طے کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ باقی سیمنٹ فیکٹریوں کیلئے ابھی تک ریٹ کیوں طے نہیں کیا؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پنجاب کی تمام سیمنٹ فیکٹریاں پانی کی قیمت ادا کر رہی ہیں یا نہیں؟ عدالت نے کہا پانی کی قیمت کے تعین کیلئے طریقہ کار سے متعلق بھی رپورٹ دی جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فیکٹریوں میں ریورس اوس موسس پلانٹس لگائیں۔ چیف جسٹس نے پنجاب میں منرل واٹر پر ازخود نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ نے تمام کمپنیوں، اٹارنی جنرل اور صوبوں کے ایڈووکیٹس جنرلز کو بھی نوٹسز جاری کر دیئے۔ عدالت نے کہا منرل واٹر کمپنیاں ٹربائنیں لگا کر مفت کا پانی مہنگے داموں بیچ رہی ہیں۔ دریں اثناءسپریم کورٹ میں صنعتی اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی عدالت نے ڈائریکٹر ایچ آر سیل سپریم کورٹ اور ڈی جی ماحولیات کو صنعتی یونٹس کے معائنے کا حکم دے دیا۔ ڈی جی ماحولیات اسلام آباد کو صنعتی یونٹس کا معائنہ کرکے پانچ دن میں رپورٹس دینے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ معائنہ کرکے بتایا جائے کتنے یونٹس فعال ہیں اور رپورٹس دی جائیں کون سے یونٹس نے ابھی تک آلودگی روکنے کے لئے اقدامات نہیں کئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا صنعتی آلودگی روکنے کے لئے اقدامات کرلئے گئے ہیں۔ ڈی جی ماحولیات تحفظ نے بتایا کوئی اقدامات نہیں کئے معائنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ چیف جسٹس نے کہا مل مالکان کو عدالت کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں یہ لوگ براہ راست لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہم ان کی پچاس پچاس لاکھ کی سکیورٹی ضبط کر لیں گے۔ یہ سارا پیسہ ڈیم فنڈز میں جانا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 24ستمبر تک ملتوی کردی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں فاضل بنچ نے ماحولیاتی آلودگی اور پانی کی کمی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس دوران چیف جسٹس نے حکومت کو چیئرمین متروکہ وقف املاک کی تقرری کا حکم دے دیا اور ہدایت کی کہ چیئرمین کسی معتبر بندے کو لگائیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا چیئرمین متروکہ وقف املاک کی تقرری حکومت کا اختیار ہے۔ اب اقربا پروری یا سیاسی وابستگی پر تقرری نہیں ہو گی جہاں بھی سیاسی بنیاد پر تقرری ہو گی۔ وہاں عدالت مداخلت کرے گی جہانگیر ترین کیس میں سیاسی تقرریوں پر فیصلہ دے چکے ہیں۔ ملک میں متروکہ املاک کی اربوں کی پراپرٹی ہے، ارزاں نرخوں پر یہ پراپرٹی لیز پر دی جا رہی ہے، یہ کیا طریقہ کار ہے۔ چئیرمین متروکہ املاک کا عہدہ خالی پڑا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ یہ بتائیں کہ یہ منرل واٹر کمپنیاں زیر زمین کتنی مقدار میں پانی استعمال کرتی ہیں اور پانی کے استعمال کی کتنی قیمت ادا کرتی ہیں۔ کمپنیوں کو زیرزمین پانی اب مفت نہیں ملے گا، زیر زمین پانی سونے کی قیمت کے برابر ہو گیا ہے۔ پورے پاکستان میں فیکٹریوں کو زیر زمین پانی کے استعمال کی قیمت دینا ہو گی۔چوآسیدن شاہ سے نامہ نگار کے مطابقچیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے حکومتی اہلکار بتائیں کہ اس بربادی کا کیا حل ہے جو سیمنٹ فیکٹریوں نے کی، مجھے مطمئن نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بات کٹاس راج کے امر کنڈ تالاب کو دیکھنے کے بعد میڈیا سے گفتگو اور مقامی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ میرے آنے پر کیوں لوگوں کو روکا گیا۔ اس موقع پر مقامی علاقہ کے لوگوں نے بتایا کہ سیمنٹ فیکٹریوں نے اُچھے ہتھکنڈوں سے ہماری زمینوں، چراگاہوں اور پانی کے وسائل پر قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ علاقہ بھر میں ماحولیاتی آلودگی، آبی آلودگی پیدا کی۔ سیمنٹ فیکٹریاں ہمارا ہی پانی ہمیں فروخت کر رہی ہیں اور امرکنڈ تالاب میں پانی کٹاس مائن کی ٹربائن سے ڈالا جا رہا ہے اور سیمنٹ فیکٹریاں آلودگی پھیلانے والے پلانٹ بھی آج تک نہیں چلائے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آج تین بجے جمعہ کی نماز کے بعد کٹاس راج جاﺅں گا اور موقع پر جا کر پانی کی قلت اور سیمنٹ فیکٹریوں کے قیام سے پیدا ہونے والی صورتحال کا خود جائزہ لوں گا۔

چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن