• news
  • image

کچھ مسائل ہمارے اپنے بھی ہیں

عورت کا استحصال کب نہیں ہوا، کبھی ذہنی، کبھی جسمانی اور کبھی جذباتی عورت صدیوں سے مظلومانہ زندگی بسر کرتی آرہی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے عورت کو مکمل وجود اور تخلیق کا ذریعہ بنایا۔ جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی اور ماں کی خدمت کرنے والے کو جنت کی نوید دی۔ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ رابعہ بصریؒ اور بے شمار باعث عزت و احترام خواتین کی مثال ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ آقائے دوجہاں نے بیٹی کی عزت و محبت کو ہمارے لئے مثال بنا دیا اور عورت کے وقار سے روشناس کروایا۔ ورنہ اس سے قبل زمانہ جاہلیت میں تو اس صنف نازک کو زندہ گاڑ دینے کی قبیح رسم مدتوں سے چلی آرہی تھی۔ عورت کیلئے مسائل کا سلسلہ دراصل ہمارے اپنے معاشرے اور رسم ورواج ہی کا پیداکردہ ہے۔ ہم نے اسلام سے پلٹ کر اپنے لئے کچھ قوانین خود ہی بنائے اور معاشرے میں نافذ کردیئے۔ دراصل کسی بھی معاشرے پر اس کی مذہبی اقدار کے ساتھ ساتھ معاشرتی روایات بھی اثر انداز رہتی ہیں۔ چونکہ یہ روایات صدیوں سے چلی آرہی ہوتی ہیں اس لئے ہمارے رہن سہن اور ہماری عادات و اطوار کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں اسی طرح آج آپ دیکھیں کہ بہت ترقی اور زمانے کے بدلتے رنگوں کے باوجود عورت کے حوالے سے خیالات و جذبات میں آج بھی کچھ خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی بظاہر تو ہمیں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ آج کی عورت زیادہ پڑھی لکھی ہے زیادہ خودمختار ہے لیکن یہ ایک خام خیالی ہے گھروں میں عورت آج بھی محبوس ہے اس کے ذہن پر حکمرانی آج بھی گھر کا سربراہ مرد ہی کرتا ہے۔عورت کو اس کے حکم کے مطابق چلنا ہی ہوتا ہے کہ یہ آج بھی اس کی مجبوری ہے۔
شادی سے قبل باپ اور بھائیوں کی عزت کا خیال اور شادی کے بعد سارا انحصار مجازی خدا پر ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ کچھ تبدیلی اب نظر آنا شروع ہوچکی ہے۔ پڑھے لکھے ہمسفر کا رویہ کافی حد تک دوستانہ ہے۔ لیکن اکثریت آج بھی پرانی روایات سے متاثر ہیں۔ جسمانی تشدد کی شکایات عام ہیں۔ ذہنی ٹارچر ایسی سزا ہے جس کے مقدمے کا کہیں پر اندراج بھی نہیں ہوسکتا۔ اورگھروں کی چاردیواری میں گونجنے والی سسکیوں کا کہیں تدارک ممکن نہیں۔ اب یہ لاچاری اس لئے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ شادی کے بعد واپسی کے تمام راستے اس کیلئے بند ہوچکے ہوتے ہیں۔ بیوہ یا طلاق یافتہ کا ہمارے ہاں کوئی مقام نہیں۔ طعنے ، باتیں اور طرح طرح کے مسائل عورت کا روگ بن جاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر آج بھی بے شمار قتل ہوتے ہیں۔ معصوم کلیوں کو آج بھی کھلنے سے پہلے مسل دیا جاتا ہے۔ ستی کی رسوم آج بھی ادا ہوتی ہیں اور قبائل کے کئے گئے فیصلوں کو آج بھی کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ وراثت کے جھگڑے جوں کے توں ہیں۔ چند فیصد خواتین ہیں جو وراثت میں اپنا حصہ لیتی ہیں ورنہ جبراً ان کو وراثت سے دستبردار کردیا جاتا ہے۔ جبکہ چھوڑنے کا ڈریا دھمکی انہیں اپنے حق کو چھوڑدینے پر مجبورکردیتا ہے۔ تیز رفتار ترقی نے جہاں عورت کو ہراساں کرنے کے کینسر کو بڑھا دیا ہے اور گھر سے باہر ملازمت کے دوران جہاں اکیلی عورت کو بے شمار مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہیں بہت سے مسائل عورت کے خود پیدا کردہ بھی ہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے مردوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ اگر عورت اپنا جسم بیچ رہی ہے تو نجانے اس کے پیچھے اس کی کیا مجبوری ہے۔ تو صاحب میں عورت ہوکر بھی اس مجبوری کو ماننے سے انکاری ہوں۔ بائیس کروڑ عوام کی آبادی والے ملک میں کرنے کو تو ہزاروں کام ہیں، بے شمار خواتین گھریلو دستکاری اور کئی دوسرے باعزت کام کرکے اپنا اور بچوں کا گزارہ کرتی ہیں۔ بے غیرتی اور بے شرمی کا کوئی عذر کوئی جواز منظور نہیں ہے۔ ہم اپنے قصور کیوں نہیں مانتے۔ آج مارکیٹ میں نظر آنیو الی اکثر بچیوں نے نازیبا اور کسی حد تک نمائش کرنے اور غیر مردوں کو ترغیب دینے والے ملبوسات زیب تن کیئے ہوتے ہیں۔ آخر یہ جسمانی نمائش کس مقصد کے تحت ہے۔ نوجوان اور نابالغ بچوں کے ہاتھ میں موبائل اور انٹرنیٹ کا بے دریغ استعمال کرنے کی اجازت دینا کس کا قصور ہے؟ والدین رات گئے تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کو چیک تک نہیں کرتے کہ آخر وہ انٹرنیٹ پر کیا ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ اشتہاری سائن بورڈوں سے لے کر سگریٹ، پان کی ڈبیوں اور اشتہاروں تک تشہیر کا ذریعہ عورت ہی ہے۔ گاڑیاں ہوں یارکشے عورتوں کے مختلف پوز دے دے کر اشیاء فروخت کرنے کیلئے مضحکہ خیز شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ آزادی کی کون سی قسم ہے ہم مسلمان ہیں ہمارا مذہب اپنا ایک تشخص اور وقار رکھتا ہے بہت سے معاملات میں ہم اپنا مقابلہ یورپ کی عورت کی آزادی کے ساتھ نہ کرسکتے ہیں نہ ہی اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ خواتین نے طرح طرح کے پوز بنا کر پوسٹ لگا نے کا شیوہ بنا رکھا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ دوسری طرف شور شرابہ کرتی ہیں کہ ہمیں پریشان کیا جارہا ہے۔ دعوت تو آپ خود دے رہی ہیں کہ آخر ہمیں پریشان کرو یہ واویلا مچانے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ دیکھو ہم کتنی حسین فطین اور ذہین ترین ہیں کہ سینکڑوں ہم پر یکمشت جان فدا کرنے کو تیار ہیں۔ میری پیاری بہنو! آپ نے خود اپنا تماشہ بنا رکھا ہے۔ حالانکہ سول میڈیا مکمل آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔
ایک سروے کے مطابق34فیصد خواتین اگرچہ مردوں کے ہاتھوں ہراساں ہورہی ہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے تحت بڑے شہروں کی تقریبا1400سے زائد خواتین ہراسمنٹ کا شکار ہیں۔70فیصدخواتین کو قوانین کا علم ہی نہیں۔ تو عرض یہ کرنا ہے کہ ہماری عزت، ہمارا وقار، ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ بہت سے معاملات میں جانتی ہوں ہمارے بس کے نہیں جن کا میں نے کالم کے شروع میں ذکر کیا۔ لیکن بہت سے معاملات ہمارے اپنے ہاتھ میں بھی ہیں۔ ایک طرف نارواسلوک کی شکایت ہے دوسری طرف عزتوں کا جنازہ بھی اپنے ہاتھوں سے اْٹھا رہی ہیں۔ آپ اعلی تعلیم حاصل کیجئے۔ملازمت کیجئے، اپنے جائز شوق اور مشاغل جاری رکھئے کہ آپ ایک مکمل انسان اور شخصیت کی مالک ہیں مگر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن