• news
  • image

یونیورسٹی آف سرگودھا اور اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ

ٰٰٖٖفیصل عزیز
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو کہ زرعی شعبہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں تاہم زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان زرعی شعبہ سے وہ اہداف حاصل نہیں کر سکا جو کہ حاصل کرنے چاہیں تھے جس کی وجہ سے معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور کسان خسارے کا شکار ہیں ۔زرعی شعبہ کی زبوں حالی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں روائتی طریقہ کاشتکاری کی وجہ سے کم پیداوار حاصل ہو رہی ہے ۔زرعی شعبہ میں تحقیق نہ ہونے ،ٹیکنالوجی و جدید طریقہ کاشت کے فقدان سے فصلوں کی پیداوار میں شدید کمی آرہی ہے ۔زراعت اسی طرح ترقی کرے گا جب اس شعبہ میں جدت لائی جا ئیگی اس ضمن میں جامعات پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کو یقینی بنانے اور بیماریوں کو کنٹرول کرنے کیلئے جدید تحقیق کو سامنے لائیں ۔یونیورسٹی آف سرگودھا نے شعبہ زراعت میں جدت لانے کیلئے مثالی کردار ادا کیا ہے اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے جدید تحقیق کو فروغ دینے کے لئے عملی اقدامات کئے ہیں ۔حال ہی میں یونیورسٹی آف سرگودھا اور اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے درمیان باہمی تعاون کے سلسلہ میں یاداشت پر دستخط کئے گئے ۔سرگودھا یونیورسٹی پاکستان کی پہلی یونیورسٹی ہے کہ جس نے اقوام متحدہ کی تنظیم کے ساتھ کسی معاہدہ پر دستخط کئے ہیں ۔اس ضمن میں باقاعدہ تقریب منعقد ہوئی جس میں وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد اور تنظیم برائے خوراک و زراعت کی پاکستان میں نمائندہ مینا ڈولچہی نے باہمی تعاون کی یاداشت پر دستخط کئے جبکہ اس موقع پر اقوام متحدہ کی تنظیم کے ہیڈ آف پروگرامز ناصر حیات ،سینڈیکٹر کنسلٹنٹ شکیل خان،پارٹنر شپس آفیسرروز فریٹینی ،ڈین فیکلٹی کالج آف ایگریکلچر ڈاکٹر محمد افضل سمیت دیگر فیکلٹی ممبران بھی موجود تھے ۔ادارہ برائے خوراک و زراعت اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے جو عالمی سطح پر در پیش بھوک و افلاس کے مسائل سے نمٹنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جس کا مقصد ہر ملک میں خوراک کی پیداوار میں اضافہ ،زرعی اصلاحات اور خوراک کے تحفظ کو ممکن بنانا ہے ۔معاہدے کے تحت سرگودھا یونیورسٹی اور اقوام متحدہ کی تنظیم پاکستان میں زرعی تحقیق ،خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مل کر کام کریں ،خوراک کے تحفظ اور غذائیت کو بہتر بنانے کے لئے کسانوں کو صحت مند بیج کی فراہمی یقینی بنائی جا ئے گی ۔معاہدے کے شراکت دار چھوٹے اور درمیانے پیمانے کے کسانوں کی استعداد بڑھانے کے لئے زرعی کاروبار کے فروغ اور زراعت میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق مختلف ٹریننگ پروگرامز کا اہتمام کریں گے ۔اقوام متحدہ کی تنظیم سرگودھا یونیورسٹی کو ٹیکنالوجی ڈیلیوری میکنزم اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان تسلیم شدہ ضابطہ کار کی فراہمی کے علاوہ یونیورسٹی کی فیکلٹی کو جدید علوم کی منتقلی اور بین الاقوامی سطح پر کامیاب شدہ پروگرامز سے روشناس کراکر جدید ٹیکنالوجی کی مہارت اور تربیت سے بھی متعارف کروائے گی ۔معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کے ای لرننگ کو رسز بھی سرگودھا یونیورسٹی کے گریجوایٹ لیول کے نصاب میں شامل کئے جائیں گے جبکہ سرگودھا یونیورسٹی کے طلبہ کو ایف اے اور ہیڈ کوارٹر میں انٹرن شپ کے لئے آن لائن ایپلائی کرنے اور نامزد ہونے کے لئے رہنمائی فراہم کی جائے گی ۔اقوام متحدہ کی تنظیم کے ساتھ معاہدہ نا صرف خطے کے کسانوں کو سیڈایکٹ 1976اور پلانٹ بریڈرز رائٹس ایکٹ 2016کے تحت صحت مند بیج کی فراہمی کو یقینی بنائے گا بلکہ سرگودھا یونیورسٹی کے فیکلٹی آئوٹ ریچ ایکسٹینشن ایجوکیشنل پروگرام کو بھی مضبوط کرے گا ۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ یونیورسٹی آف سرگودھا پاکستان کی پہلی پبلک یونیورسٹی ہے کہ جس نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اس معاہدے کے مندرجات پر تیزی سے عمل کیا جائیگا تاکہ خطہ کے کسانوں کو زرعی شعبہ میں بہتری لانے کے لئے مناسب رہنمائی فراہم کی جا سکے ۔انہوں نے کہا کہ یورنیوسٹی کے ہر شعبہ میں جدید تحقیق و علوم ،ٹیکنالوجی اور جدید رجحانات کو پروان چڑھنے کے لئے 5بین الاقوامی اداروں کے ساتھ معاہدات کئے جا چکے ہیں جبکہ قومی سطح پر بھی مختلف شعبہ جات کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدات کئے گئے ہیں تاکہ یونیورسٹی ہر شعبہ زندگی کیلئے اپنے حصے کا کردار ادا کر سکے ۔تنظیم برائے خوراک و زراعت کی پاکستان میں نمائدہ مینا ڈولچہی نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ 10سال کے دوران کسانوں تک زرعی شعبہ کی جدید تحقیق نہیں پہنچی جس کی وجہ سے کم پیداوار سمیت دیگر غذائی مسائل میں اضافہ ہوا ۔اس معاہدے کا مقصد علاقہ کے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی آگاہی فراہم کرنا ،دیہی اور شہری علاقہ کے درمیان روابط قائم کرنا ،کچن گارڈننگ ،لائیو سٹاک اور فوڈ پراڈکٹس کی تیاری کے حوالے سے تعاون فراہم کرنا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح خواتین کا خوراک کی پیداوار سے حصہ 50فیصد جب کہ زراعتی افرادی قوت میں حصہ 43فیصد ہے ۔پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میںہوتا ہے کہ جہاں خواتین کی بڑی تعداد زراعت کے پیشہ سے منسلک ہے تاہم مناسب تربیت اور کاشت کاری کے جدید طریقہ سے ناواقفیت کی وجہ سے خواتین بہتر نتائج حاصل نہیں کر پا رہی ہیں ۔ہمارا ادارہ پاکستان میں زراعت کے پیشہ سے منسلک خواتین کو مضبوط کرنے کیلئے معاونت فراہم کے گا ۔انہوں نے کہاکہ سرگودھا کا شمار بہت جلد پاکستان کے بڑے شہروں میںہو گا ۔یونیورسٹی آف سرگودھا اور ایف اے اوکے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ محققین اور کسانوں کے مابین نالج گیپ کم کرنے کے لئے پل کا کردار ادا کریں ۔تقریب کے اختتام پر وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے مہمانان گرامی کو سوینئرز پیش کئے ۔علاوہ ازیں وفد نے یونیورسٹی کالج آف ایگریکلچر کا بھی دورہ کیا جہاں ان کو زرعی شعبہ جات میں جاری مختلف تحقیقی منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی آف سرگودھا زرعی شعبہ میں جدت لانے کے لئے اس سے قبل چائنہ بیلٹ اینڈ روڈ ایگریکلچر لیگ میں بھی شمولیت اختیار کر چکی ہے جس کا مقصد ممبر ممالک کے اداروں کے اشتراک سے زرعی تحقیق اور زرعی شعبہ میں جدید و مفید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیتی ہے ۔یونیورسٹی ایکسچینج پروگرام کے تحت سکالرز کو بین الاقوامی
جامعات میں بھیج رہی ہے تاکہ وہ جدید تحقیق کا حصہ بن سکیں ۔سائوتھ چائنہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے سٹرس ریسرچ سنٹر میں سٹرس کی پیداوار میں اضافہ ،بیماریوں کے تدارک کے لئے تحقیق کی جا رہی ہے جس کے مثبت نتائج مرتب ہو رہے ہیں ۔زرعی شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے جو اقدامات کر رہی ہے اس کے زرعی پیداوار معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ زرعی شعبہ میں جدید تحقیق کے زریعے ہی بہتری لائی جا سکتی ہے اور زرعی شعبہ کی بہتری سے کسانوں کی خوشحالی جڑی ہے اور جس ملک کا کسان خوشحال ہو وہ ملک بڑی تیزی سے ترقی کرتا ہے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن