مذاکرات کے مشکل دور کیلئے شاہ محمود قریشی 22ستمبر کو امریکہ جائیںگے
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان اور امریکہ کے درمیان وزراء خارجہ کی سطح پر دو طرفہ مذاکرات کے مشکل اور دوسرے دور کیلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 22 ستمبر کو واشنگٹن روانہ ہونگے۔ مذاکرات کی تکمیل پر پاکستان کے وزیرخارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کیلئے نیو یارک روانہ ہو جائیں گے جہاں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے ان کی اہم ملاقات ہو گی۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق پاک امریکہ وزراء خارجہ کی ملاقاتوں کی سب سے خاص اہمیت یہ ہے کہ اس بہانے دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر ایک بار پھر روابط استوار ہوئے ہیں ۔ اور قوی امکان ہے کہ ملاقاتوں اور مذاکرات کا یہ سلسلہ مزید دراز ہو گا۔ تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی شرائط پر افغان طالبان فوری جنگ بندی کریں، حملے روکیں، امن مذاکرات کی میز پر آئیں اور پاکستان اس کام کیلئے انہیں آمادہ کرے۔ امریکہ مزید یہ چاہتا ہے کہ پاکستان مبینہ طور پر ان عناصر کی سرپرستی بند کرے جو افغانستان میں اتحادی فوجوں پر حملوں کے ذمہ دار ہیں ۔ وہ اس امر کا بھی خواہاں ہے کہ پاکستان، بھارت افغان براہ راست تجارت میں سہولت کار بنے۔ پاکستان ان تینوں امور پر امریکہ کی فوری مدد نہیں کر سکتا کیوںکہ امریکہ کو قطر میں طالبان نمائندوں کے ساتھ براہ راست تعلقات کی بدولت بخوبی علم ہے کہ افغان طالبان، اپنے قیدیوں کی رہائی اور افغانستان سے امریکی اتحاد کے فوجی انخلاء کے ایک واضح اور اعلانیہ لائحہ عمل کے بغیر امن مذاکرات پر راضی نہیں ہوں گے۔ اور پاکستان ایک حد سے زیادہ ان پر رسوخ بھی نہیں رکھتا چنانچہ امن بات چیت کے آغاز کیلئے اگر امریکہ اور طالبان قدرے لچک دکھائیں تب پاکستان کے کردار کی گنجائش نکلتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے دورہ واشنگٹن کے موقع سے استفادہ کرتے ہوئے امریکہ پر واضح کر دیا جائے گا کہ اسے بھارت اور افغانستان کے درمیان براہ راست تجارت کیلئے بے تاب ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ کے ذریعہ پاکستان نے ہر ممکن سہولیات پہلے سے فراہم کر رکھی ہیں۔ طویل مدت کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ ملک کے وزیر اعظم نے کسی مجبوری کے بجائے، اختیار ی طور پر نیویارک نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔