مادرِ جمہوریت بیگم کلثوم نواز(قسط نمبر:2 )
28 مئی 2001ء کو ایٹمی دھماکوں کی تیسری سالگرہ منانے کیلئے بیگم کلثوم نواز کے ہمراہ چاغی جانے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس وقت ماڈل ٹاؤن لاہور پولیس کے نرغے میں تھا۔ اس کے باوجود ہم چاغی جانے کے لئے نکلے ٹھوکر نیاز بیگ پر 2 گھنٹے تک پارٹی عہدیداروں جنہوں نے بیگم صاحبہ کے ساتھ چاغی جانے کا عہد کر رکھا تھا ان کا انتظار کرتے رہے مگر افسوس مشرف کے خوف سے بڑے بڑے نامور ساتھی اپناوعدہ وفا نہ کر سکے۔ بیگم صاحبہ کی قیادت میں کارکنان کے ہمراہ ہم یہاں سے نکلے۔ قافلہ سالار کیپٹن (ر) محمد صفدر تھے اور شیخوپورہ سے چودھری برجیس طاہر بھی ساتھ تھے۔ راستے میں قدم قدر پر رکاوٹیں اور پولیس تشدد کے ان گنت واقعات رونما ہوئے۔ میاں چنوں میں بیگم حمیدہ وائیں نے بیگم کلثوم نواز کی دعوت کر رکھی تھی جونہی ہمارا قافلہ شہر میں داخل ہونے لگا، پولیس کی کارکنوں سے مڈ بھیڑ ہو گئی جس میں مَیں ایک بار پھر کارکنوں کو بچاتے اور بیگم صاحبہ کے سامنے ڈھال کا کام انجام دیتے زخمی ہو گیا۔ شریف فیملی کا خاندانی فوٹو گرافر ذوالفقار بلتی مرحوم کا قیمتی کیمرہ لاٹھی چارج کے باعث چکنا چور ہو گیا جس پر وہ انتہائی افسردہ ہو گیا۔ بلتی مرحوم شریف خاندان کا انتہائی وفادار اور میاں نواز شریف کا پرجوش ساتھی تھا۔ بہرحال ہم نے بیگم صاحبہ کے حکم پر نیا کیمرہ خرید لیا۔ چاغی پہنچتے پہنچتے قافلہ ہزاروں میں پہنچ چکا تھا اور وہاں کی وادیوں میں صرف ایک آواز نواز شریف زندہ باد، بیگم کلثوم نواز زندہ باد گونج رہی تھی۔ 28 مئی کو بیگم کلثوم نواز نے چاغی پہاڑ پر قومی پرچم لہرایا۔ واپس کوئٹہ آنے پر انہیں کسی کام کے سلسلے میں کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ کراچی جانا پڑا۔ اس موقع پر بیگم کلثوم نواز نے مجھے مخاطب کر کے کہا سندھیلہ بھائی! اب میں نواز شریف کے ان جانثاروں کو بحفاظت واپس لے جانے کی ذمہ داری آپ پر ڈالتی ہوں۔ الحمد اللہ بیگم صاحبہ کے حکم پر راقم نے تمام جانثاروں کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچا دیا۔
دوران اسیری اٹک قلعہ اور جیل میں بھی میاں نواز شریف قوم کے بارے سوچتے رہتے تھے۔ جیل سے پیغام آیا کہ چولستان کا صحرا قحط سالی کے نرغے میں ہے وہاں کے باسیوں کی مدد اور اشک شوئی کیلئے جائیں۔ میں نے اپنی طرف سے امدادی سامان پر مشتمل ایک ٹرک سامان باقی سامان بیگم صاحبہ کی طرف سے ٹرکوں پر لوڈ کروا کر انہی کی قیادت میں چولستان کے لق دق صحرا میں پہنچے۔ وہاں لاتعداد جگہ جگہ پر جانوروں کے مردہ ڈھانچے بکھرے نظر آئے۔ بیگم صاحبہ کے بارے سنتے ہی اردگرد کے باسی بڑی تعداد میں جمع ہو گئے۔ بیگم کلثوم نواز نے وہاں امدادی سامان تقسیم کیا۔ یہ منظر اب تک میری یادوں میں گھوم رہا ہے کہ کس طرح ان لاچار باسیوں نے کلثوم نواز زندہ باد، نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگائے کس طرح وہ کہہ رہے تھے کہ وہ جو ہم سے مدتوں سے ووٹ لیتے چلے آرہے تھے ہماری مدد کو نہ آئے آپ جبکہ خود بھی مصائب و الام کا شکار ہیں ان حالات میں ہماری امداد کو پہنچنا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔
اٹک قلعہ میں جب بھی میاں نواز شریف سے ملاقات کے لئے بیگم صاحبہ جاتی تھیں۔ ان دنوں بڑے بڑے نامور سیاستدان میاں نواز شریف کے گھر آنے سے بھی کتراتے تھے مگر بیگم کلثوم نواز اس بھائی کو ہمیشہ ساتھ لے جاتیں۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پانامہ کیس کے دوران سو سے زائدپیشیاں بھگتنے کے باوجود ہر موقع پر میاں نواز شریف اور مریم نواز کے چہرے پر کسی قسم کی پشیمانی کے کسی صورت آثار دکھائی نہ دئیے۔ اگرچہ ان دنوں بیگم صاحبہ شدید علیل تھیں ۔ راقم بھی متعدد بار ان کی عیادت کے لئے لندن جاتا رہا ۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے : بیگم صاحبہ جب کومے سے چند ایام کے لئے نکلیں اپنے بائوجی کو پکارتی رہیں ان کے بائوجی انہیں وہاں کیسے مل سکتے تھے وہ تو قوم کی خاطر ووٹ کو عزت دلانے کی پاداش میں ایک بار پھر اڈیالہ جیل آباد کر چکے تھے۔ بائوجی پکارتے پکارتے بیگم صاحبہ راہی اَجل ہوگئیں۔ 11ستمبر کو بیگم صاحبہ کی رحلت کی خبر سنتے ہی آنکھوں میں آنسو لیے سکتے میں آگیا ۔ماضی کے واقعات نے پھر سے کروٹ لی، میں سوچتا رہا کہ یہ منظر کیسا ہوگا جب بیگم کلثوم صاحبہ اپنے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز سے بار بار بائو جی کے بارے میں پوچھتی ہوں گی۔
میں اس کرب کو بہتر انداز میں سمجھتا ہوں کیونکہ مشرف آمریت کو چیلنج کرنے کی پاداش میں بھی جیل میں تھا۔ اس دوران میرے والد شدید علیل تھے ان کے آخری لمحات میں پاس نہ ہونے کا درد آج تک محسوس کر رہا ہوں۔ دیر تک سکتے میں رہنے اور بحالی جمہوریت کے دوران پیش آمدہ حالات اور ان دنوں میاں نواز شریف کی ایک بار پھر اڈیالہ جیل میں اسیری کے دوران پیش آنے والے تمام واقعات جن میں میاں شریف کی جلاوطنی میں وفات ذہن میں گھوم گئے۔ میرے اندر سے آواز آئی عارف سندھیلہ فکر نہ کر بیگم کلثوم نواز کے روپ میں ان کی بیٹی مریم نواز اب اپنے باہمت والد میاں نواز شریف کی رہنمائی کرے گی انتقال کی خبر کے فوری بعد میں نے لندن کے لئے رخت سفر باندھ لیا اگلی صبح لندن میں تھا۔ لندن جاتے بھی جہاز میں ہر کوئی بیگم صاحبہ کی اچھائیاں بیان کر رہا تھا۔ لندن کا ماحول بھی سوگوار تھا راقم16سال تک پیرس میں رہا ۔ اچھی طرح معلوم ہے کہ دیارِ غیر میں اجنبیوں کو کس قسم کے حالات کا سامنا ہوتا ہے مگر لندن میں ہر پاکستانی بیگم صاحبہ کی وفات پر افسردہ دکھائی دیا اور وہ ریجنٹ مسجد کی طرف ہی آ رہا تھا لندن کی تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ شاید ہی پہلے کسی غیر ملکی کونصیب ہوا ہو ۔ ہر آنکھ آشکبار تھی ہر کوئی ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہا تھا جونہی جسد خاکی ائیر پورٹ کے طرف لے جانے لگے تو چار سو ایک ہی نعرہ گونج رہاتھا الوداع الوداع مادر جمہوریت الوداع! میت کے ساتھ واپسی پر ایک بار پھر سارا راستہ جہاز میں یہ سوچتا رہا کہ کس طرح بیگم صاحبہ نے مشرف آمریت کو للکارا حالانکہ اس وقت بڑے بڑوں کا پتہِ پانی ہو جاتا تھا جہاز میں اپنے غیر سبھی ہی تو بیگم کلثوم نواز کی خوبیاں بیان کرنے میں رطب اللسان تھے ۔ آٹھ گھنٹے کے اس سفر میں ماسوائے بیگم صاحبہ کے اوصاف حمیدہ کے سوا کوئی دوسری بات نہ ہوئی۔پھر جاتی امرا میں ہونے والے تاریخی جنازے نے ثابت کر دیا کہ بیگم کلثوم نواز کو اک زمانہ مدتوں یاد رکھے گا۔ جنازے میں ہر کوئی یہی کہتے سنا گیا کہ موجودہ جمہوریت کا سہرا بیگم کلثوم نوازکو ہی جاتاہے۔ بیگم صاحبہ کے متعلق ہر خاص و عام کے یہ الفاظ اس بات کی واشگاف انداز میں گواہی ہیں کہ ایسی شخصیات مدتوں بعد ہی پیدا ہوتی ہیں: ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
٭…٭…٭