ٹریفک سہولتوں کا فقدان اور عدالت عالیہ
عدالت عالیہ لاہور نے شہر میں بلکہ تمام شہروں میں مادرپدر آزاد ٹرانسپورٹ کو آرڈر میں لانے کے لئے واضح احکامات جاری کئے ہیں ۔ چنگ چی سے لے کر عام گاڑیوں تک فٹنس سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا ہے اور اپنے احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے رپورٹ بھی مانگ لی ہے۔ اس وقت پنجاب کے تمام بڑے شہر اور خاص طورپر لاہورپبلک ٹرانسپورٹ کی حد تک ایک عذاب میںمبتلا ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لئے جس طرح تعلیم اور صحت کے شعبے کو شعوری طور پر نجی کاروباری حلقے کی طرف منتقل ہونے دیا اسی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی ایسی فضا بنائی گئی کہ لوگ مجبوراً چنگ چی اور اسی نوعیت کی غیر محفوظ سواریوں کو اپنا لیں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ لاہور کے درجنوں روٹوں پر بند کر دی گئی پہلے تو میٹروبس کو کامیاب بنانے کے نام پر ویگنوں کی سروس کو محدود کیا گیا۔ اس سے پہلے اومنی بس کی طرز کی برسوں سے چلنے والی بسوں کو ختم کیا گیا ۔ ایک کروڑ کی آبادی کے مہذب اور باشعور عوام کو چند افسروں کی صوابدید پر ، رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا۔ ان افسران نے شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کئے بغیر عوام کی ضرورتوں کو ذاتی طور پر مشاہدہ کئے بغیر فیصلے کئے اور کہیں بسوں کو بند کہیں روٹ تبدیل اور کہیں اور غلط فیصلے اپنے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر کر ڈالے نتیجہ یہ ہوا کہ میٹروبس کے اربوں کے منصوبے اور کروڑوں کی سالانہ Subsidyسبسڈی کے باوجود اسی میٹروبس کے روٹ پر بھی نیچے سڑک پر لوگ سفر کے عذاب میں مبتلا ہو کر ر ہ گئے ۔ شہر کے دوسرے درجنوں روٹوں کی حالت تو اور بھی دیدنی تھی جہاں چھوٹے چھوٹے سفر کے لئے لوگ بے بسی کا نمونہ بن کر رہ گئے ۔ یہ وہ خلا تھا جسے موٹرسائیکلوں سے دیسی ورکشاپوں پر بنائی گئی بغیر اشارہ بتی اور بغیر بیک مرر یا دوسری ضروری سہولتوں کے چنگ چی فیملی نے پر کیا۔ لاہور میں اس وقت ہزاروں کے حساب سے چنگ چی رکشے چل رہے ہیں جن کو 50فیصد انڈر ایج لڑکے اور 90فیصد ڈرئیوانگ لائسنس سے محروم افراد چلا رہے ہیں۔ ان سے ہٹ کر جو مسافر ویگنیں چل رہی ہیں ان میں سے 80فی صد کھٹارا ہیں اور جب کوئی حادیہ ہوتا ہے تو پھر ایک عارضی شور اٹھتا ہے اور بس لوگوں نے مجبوراًاپنی نجی ٹرانسپورٹ رکھنا شروع کی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جب لاہور ٹریفک کے عذاب کا نمونہ بن کر رہ گیا ہے ۔ میرے سمیت لوگ چیختے رہے کہ نام و نمود والے میٹروبس اور اورنج ٹرین والے منصوبوں سے پہلے لاہور کے دس پندرہ اہم اور گنجان مقامات پر فلائی اوور بنالیں ۔ سول کورٹس ، داتا دربار ، اک موریہ دو موریہ پل،ریگل چوک ، جی پی او ، لکشمی چوک اور ایسے ہی دوسرے مراکز کو اگر جیل روڈ ، شادمان روڈ ، کلمہ چوک ڈی ایچ اے موڑ چونگی امر سدھو اور گلبرگ مین بلیوارڈ موڑ کی طرح ٹریفک کی روانی کے لئے فلائی اوورز سے آراستہ کر لیا جاتا تو آج میٹروبسوں کے ٹریک کے باوجود ٹریفک جام کے یہ مناظر نہ دیکھنا پڑتے ۔
اسی طرح اگر وقت پر پھیلتی چنگ چی اور دوسری غیر معیاری گاڑیوں پر نظر ڈالی ہوتی تو آج فاضل عدالتوں کو اس کا نوٹس نہ لینا پڑتا۔ اب ایک گھڑ مس مچا ہے اور تبدیلی والی حکومت کے لئے ان مسائل پر قابو پانا ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ۔ اس لئے کہ ہزاروں خاندانوں کا روزگار غیر محفوظ چنگ چیوں سے وابستہ ہوگیا ہے اور شہر کی آدھی آبادی ٹریفک کے عذاب سے بچنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے نہ ہونے کے باعث ذاتی گاڑیوں پر منتقل ہو چکی ہے۔ پھر 60روپے (نو پرافٹ نو لاس ) والی میٹروبس کی ٹکٹ 20روپے میں لے کر سفر کرنے والے ہزاروں لوگوں کو 60روپے کی ٹکٹ پر لانا نئی حکومت کے لئے خود کو بدنام کرنے کا باعث بنے گا تو وہ کیسے نظام کو درست کرپائیں گے ۔ دفتروں میں بیٹھ کراربوں روپے کے پروجیکٹوں کی ڈرائینگ اور عوامی سہولتوں کو نظر انداز کرنے کی ایک بھیانک مثال مغلپورہ سے رنگ روڈ تک نہر کے دوطرف بنائی گئی سڑک پر یوٹرن ہیں جو نہر کے دونوں طرف کی لاکھوں کی آباد یوں اور شہریوں کے لئے ایک عرصہ سے عذاب بنے ہوئے ہیںکیونکہ تاجپورہ ایل ڈی اے سکیم سمیت ان آبادیوں کے لوگ نہ آسانی سے گھروں کو جا سکتے ہیں نہ آ سکتے ہیں ۔