• news
  • image

ستمبر کی جنگ ہم جیتے‘ دسمبر کی کیوں ہارے

22ستمبر1965ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر جنگ روک دی گئی۔ اس موقع پر وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا پاکستان قیام امن کی خاطر جنگ بند کر رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر جلد حل نہ کیا گیا تو پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہو جائیگا۔
جنگ کے آغاز پر ایوب خان کا قوم سے خطاب مثال بن گیا۔ ان کیخلاف محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں دھاندلی سے ہرائے جانے سے پیدا ہونیوالی نفرت کی دھول یکسر بیٹھ گئی۔ پوری قوم ایوب خان کی قیادت میں متحد ہی نہیں سیسہ پلائی دیوار نظر آئی۔ ایوب خان قوم کے بہادر اور جرأتمند سپوت نظر آئے۔ انکی تقریر دشمن کیلئے شیر کی دھاڑ تھی مگر اندر سے یہ شیر بزدل ثابت ہوا جس نے کشمیر پر قابض ہوتی پیش قدمی روک دی جبکہ جذبہ ایمانی سے سرشار پاکستانی قوم ایوب خان کی پکار اور دشمن کو للکارپر سر بکف ہوکر محاذ جنگ کی طرف بڑھنے لگی۔ اس جنگ میں قوم کی مکمل پارٹیسپیشن نظر آئی۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ 12 سال کے تھے کہ بندوق اٹھا کر اپنے کزنز کے کھودے ہوئے مورچوں میں جا پہنچے۔ ان کو بھارتی پیراٹروپرز کی خبر ملی تھی۔ وہ مورچوں میں انکے منتظر تھے۔ اگر بھارتی چھاتہ بردار پاکستان میں کہیں بھی اترتے‘ ان کا بچ نکلنا ناممکن تھا۔
بعد میں جنرل اور پھر گورنر بننے والے معین الدین حیدرجنگ 65ء میں محاذ پر تھے‘ وہ کہتے ہیں، نوجوانوں کے گروپ محاذ پر چلے آئے اور اپنی خدمات پیش کیں۔ دفاعی فنڈ لوگوں نے خود سے قائم کرکے عطیات فوج تک پہنچانے کی کوشش کی۔
پاک فضائیہ کے پائلٹ امجد حسین خان اور آفتاب احمد خان بھارتی ایئرفورس کے اٹیک کا جواب دینے والے پہلے ہواباز تھے۔ بھارتی ایئرفورس نے راہوالی میں مسافر ٹرین پر بمباری کی تھی۔ ان پائلٹوں نے بھارتی جہازوں کا پیچھا کیا اور ان میں سے ایک کو پاکستانی حدود میں مار گرایا۔ یہ اعزاز فلائٹ لیفٹیننٹ آفتاب کے حصے میں آیا۔ اس دوران فلائٹ لیفٹیننٹ امجد حسین خان نے دو بھارتی جہازوں کو ڈھیر کیا۔ دوسرے جہاز کو گن فائر کرکے مار گرایا اور سپرسانک سپیڈ ہونے کے باعث دشمن کے جہاز کے پرخچوں میں سے ان کا جہاز گزراتو ان کا جہاز اڑان جاری رکھنے کے قابل نہ رہا ۔ انہیںبیل آئوٹ کرنا پڑا۔ امجد حسین کہتے ہیں وہ بحفاظت زمین پر اترنے کے بعد پیراشوٹ سمیٹ رہے تھے کہ فجر کی اذان سنائی دی۔
تھوڑی دیر میں سورج کی کرنیں شفق بکھیرنے لگیں تو ایک سائیکل سوار نوجوان نظر آیا‘ اسے آواز دی اور اپنے بارے میں بتایا۔ اس نے سائیکل انکے حوالے کی اور گائوں کا راستہ دکھا دیا۔ گائوں میں پہنچے تو آناً فاناً پورے گائوں کو خبر ہو گئی۔ لوگوں نے چوپال میں … چارپائی پر اجلی چادر بچھا کر عزت افزائی کی۔ چند ثانیوں میں ایک اماں جی چنگیر میں روٹی پر مکھن کا پیڑا اور ہاتھ میں لسی کا گلاس لیکر آئی۔ اس نے ماتھے پر بوسا دیتے ہوئے کہا ،’’پتر ناشتہ کرکے جلدی جا اور دشمن کو وہ مار دے کہ کبھی بھلا نہ پائے‘‘۔ اسی اثنا میں گائوں کا چودھری آگیا جس نے جیپ کی چاپی پکڑاتے ہوئے کہا اس پر سرگودھا جائیں‘ جب تک جیپ کی ضرورت ہے، اسے استعمال کریں۔ یہ ہے وہ کردار جو قوم نے جنگ میں حصہ لیکر ادا کیا۔ ایئرفورس میں سرگودھا کی ان دنوں اطراف میں دیوار اور باڑ نہیں تھی۔ اسکی حفاظت کا فریضہ سرگودھا کالج کے طلباء نے دن رات ادا کیا۔ دشمن کا ٹارگٹ بیس کا رن وے بھی تھا جس پر کئی بار اٹیک ہوا۔ رن وے کو دشمن کے حملے کے بعد فوری طورپر مرمت کرکے قابل استعمال بنانا مشکل مرحلہ تھا۔ اس مقصد کیلئے جیل سے دو سو سے زائد قیدیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان میں سزائے موت کے مجرم بھی شامل تھے۔ انہیں چھوٹی باسکٹیں دی گئیں۔ ان میں بجری اور پتھر بھر کر وہ حملے کے فوری بعد گڑھے پُر کر دیتے۔ اکثر تو حملے کی پروا بھی نہ کرتے‘ اس امرپہلو کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ عام اور سنگین مقدمات اور سزائے موت تک کے قیدی جنگ کے بعد جیل چلے گئے۔ کوئی بھی فرار نہ ہوا۔جنگ میں حصہ لینے جانباز کہتے ہیں کہ جنگی نغمے انکے جذبات اور خون کو گرماتے رہے۔ جنگ کے بعد بھی کافی عرصہ ایئر فورس کے پائلٹوں بحریہ اور بری فوج کے افسروں اور جوانوں سے دکاندار خریدے گئے سامان کے پیسے نہیں لیتے تھے۔ یہ لوگ مفت خریداری سے انکار کرتے تو دکاندار انکے گھروں اور بیرکوں میں سامان پہنچا دیتے۔ ستمبر جنگ پاک فوج نے قوم کے بھرپور کردار اور دامے درمے سخنے حصہ لینے کے باعث جیتی۔ فوج کیخلاف اگر کسی طبقے میں ان دنوں نفرت پائی جاتی تھی تو قوم کے بے پایاں دلیرانہ جذبات دیکھ کریہ طبقہ دبک گیا تھا۔
اگلا سوال ہے کہ ستمبر جنگ میں لازوال اور بے مثال کامیابی حاصل کرنیوالی فوج محض پانچ سال بعد دسمبر جنگ کیوں ہار گئی تھی۔ دسمبر 1971ء کی جنگ میں شکست کی کئی وجوہات اور تاویلات ہو سکتی ہیں۔ وہاں پر بری فوج کی مختصر تعداد کے ساتھ شاید اسلحہ بھی مناسب مقدار میں موجود نہیں تھا۔ بحریہ اور فضائیہ کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں بیٹھ کر کرنے کا فلسفہ پیش اور اس پر عمل کرنیوالے شاید پانچ سو سال قبل یا ہزار سال آگے کی مخلوق سے تعلق رکھتے تھے۔ اس دور میں سیاسی معاملات بھی فوجی قیادت کے پاس تھے جس کا سربراہ جنرل یحییٰ خان جو کبھی ایک قابل اور دلیر جرنیل تھا۔ کچھ اقلیم اختر عرف جنرل رانی کی ادائوں میں کھوکر اور کچھ انگور کے پانی میں ڈوب کر اپنی اہلیت‘ قابلیت اور تمام صلاحیتوں سے بے گانہ ہو چکا تھا۔ بالفرض یہ سب کچھ نہ ہوتا‘ پاک فوج کی بڑی تعداد جدید اسلحہ کے ساتھ لیس ہوتی‘ یحییٰ خان اپنے حواس میں فوج کی کمانڈ اور پاکستان کی قیادت کر رہا ہوتا تو بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہونا ہی تھی۔
مجیب الرحمن نے دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پاکستان اور پاک فوج کیخلاف بنگالیوں کے دل و دماغ میں نفرت کا بارود بھر دیا تھا۔ ان دنوں بھارت کی ’’مودی‘‘ اندرا گاندھی تھی۔ غدار وطن نے اسکے ایما پر بنگالیوں کو برانگیختہ کیا۔ ستمبر جنگ میں قوم پاک فوج کے ہمقدم تھی۔ مشرقی پاکستان میں سامنے دشمن اور پشت پر بھی دوست اور ہمدرد نہیں اندراگاندھی اور مجیب کے گماشتے تھے۔ جو بھارتی ایجنٹوں کو گھروں میں پناہ دیتے موقع ملنے پر پاک فوج کے سپوتوں کا بے رحمی سے خون بہارہے تھے۔ ایسے حالات میں فوج کتنا عرصہ لڑ سکتی تھی۔ سال دو سال یا پانچ سال ،پھر بھی یہی کچھ ہونا تھا۔
آج ایک اور سوال بھی سامنے ہے کہ کیا قوم میں فوج کیلئے آج بھی 1965ء کی طرح پیارمحبت فریفتگی اور ایثار کا جذبہ موجودہے، جنگ ہوئی تو کیا قوم اُسی طرح فوج کے شانہ بشانہ ہو گی۔ ان دو سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب ہاں میں ہے اور زودار ہاں میں ہے۔ پہلے سوال کا جواب بھی ہاں میں ہے مگر رسمی سی ہاں میں ۔ فوج کیخلاف عوام کے دل میں نفرت کے بیج بونے کی کوششیں بلکہ سازشیں ہو رہی ہیں۔ اب نہیں کب سے ہو رہی ہیں۔ ذرا پیچھے چلے جائیں مشرف کے دور میں، جب پاک فوج کے جوانوں کا وردیوں میں شہروں میں جانا محال ہو گیا تھا۔ پاک فوج کیخلاف اس ذہنیت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی۔ سوشل میڈیا میں غداروں کی نمک حلالی کرنیوالے پاک فوج کیخلاف زہر اگل رہے ہیں۔ آج پاک بھارت جنگ ہوتی ہے تو ان خبیثوں کے پروردہ مہا خبیث ان سے وہی کردار ادا کرنے کی توقع کرتے ہیں جو غدار بنگالیوں نے کیا تھا۔ مگر یقین ہے کہ قوم ان بدبختوںکے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے پاک فوج کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو گی۔ فوج کیلئے پھر خواتین دفاعی فنڈ میں زیورات دیں گی اور مائیں پھر چنگیر میں روٹی پر مکھن کا پیڑا رکھے آئیں گی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن