انور مجید‘ بیٹا اور حسین لوائی پھر جیل منتقل‘ وزیراعلی سندھ سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں نہ بٹھائیں : چیف جسٹس
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میںجعلی بنک اکا¶نٹس ازخود نوٹس کیس میں جے آئی ٹی نے پہلی پیشرفت رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے وسربراہ جے آئی ٹی نے عدالت کو بتایا کہ 33 مشکوک اکا¶نٹس کا سراغ لگایا ہے جن کی تحقیقات کی جارہی ہیں جبکہ تحقیقات میں 334 ملوث افراد سامنے آئے ہیں تمام افراد اکا¶نٹس میں ٹرانزیکشنر کرتے رہے۔ جعلی بنک اکا¶ نٹس میں گرفتار ملزموں انور مجید اور عبدالغنی مجید اور حسین لوائی کی میڈیکل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔ عدالت نے تینوں ملزموں کو فوری جیل منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔ جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے پہلی پیشرفت رپورٹ میں عدالت کو بتایا کہ جعلی اکا¶نٹس کے ساتھ 210 کمپنیوں کے روابط رہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی لانچز کا معلوم نہیں ہوا ذرا لانچ کے ذریعے رقم منتقلی کا بھی پتہ کریں'، احسان صادق نے کہا کہ ابھی لانچ تک نہیں پہنچے احسان صادق نے بتایا کہ مزید 33 مشکوک اکا¶نٹس کا سراغ لگایا ہے جبکہ کمپنیوں میں 47 کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اکا¶نٹس کا مقصد یہی ہے چوری اور حرام کے پیسے کو جائز بنایا جائے چیف جسٹس نے کہا 'ایک اہم کردار عارف خان بھی ہے جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ وہ بیرون ملک ہے، کس ملک میں ہے ابھی ظاہر نہیں کر سکتا۔ احسان صادق نے کہا کہ باہر سے ملزموں کو واپس لانے کے اقدامات کر رہے ہیں جس کے لیے ملزموں کے ریڈ وارنٹ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں جبکہ تحقیقات کے لیے نیب ، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بنک سے ریکارڈ لے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جعلی اکا¶نٹس میں کنٹریکٹرز نے رقم جمع کرائی ہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا 'کیا رقم کراس چیک کے ذریعے اکا¶نٹس میں جمع ہوئی احسان صادق نے بتایا کہ جعلی اکا¶نٹس کے معاملے کا جائزہ لینا پڑے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اومنی گروپ کی کتنی شوگر ملز ہیں، سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا 16 شوگر ملز ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کیا اومنی گروپ کسی کا بے نامی دار تو نہیں جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ جعلی بنک اکا¶ نٹس میں رقم جمع کروانے والے ٹھیکیدار بھی تھے۔ سرکاری ٹھیکیداروں کے نام بھی رپورٹ کا حصہ بنا دئیے تاہم تمام ٹرانزیکشنز کا جائزہ لینا مشکل کام ہے۔ چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ جے آئی ٹی کا خرچہ اومنی گروپ پر ڈالیں گے۔ پیسہ کوئی کھائے اور خرچہ سرکار کیوں کرے کوئی گھر بیچ کر اخراجات کیلئے جے آئی ٹی کو پیسے دیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہمارے تمام اکا¶نٹس منجمد ہیں پیسے نہیں دے سکتے۔ عدالت نے حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ اومنی گروپ کے اکا¶نٹس کھولنے کی درخواست پر فیصلہ نہ دے۔ آرٹیکل 184 کے تحت اسپیشل کورٹ کو حکم جاری کرنے سے روکتے ہیں اور خصوصی عدالت جعلی بنک اکا¶نٹس سے متعلق سپریم کورٹ کو آگاہ کئے بغیر کوئی حکم جاری نہ کرے۔ دوسری جانب نورمجید عبدالغنی میڈیکل بورڈکے معاملے پر جعلی بنک اکا¶ نٹس میں گرفتار ملزمان انور مجید اور عبدالغنی مجید اور حسین لوائی کی میڈیکل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ۔ عدالت نے تینوں ملزمان کو فوری جیل منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ کو بھی میرا ایک پیغام دے دیں اگر انور مجید اور عبدالغنی مجید کو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے بٹھایا گیا تو اچھا نہیں ہو گا اگر ہمیں پتا چلا تو ہم کارروائی کریں گے ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ سندھ سے لے کر پنجاب کے حوالے کر دیا جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ نے انور مجید اور عبدالغنی مجید دونوں کو جیل منتقل کرنے کی سفارشیں کی ہیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تاحیات بیمار نہیں ہیں انور مجید کی اوپن ہارٹ سرجری کرانی ہے تو کروائیں ہمیں اعتراض نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی تو انور مجید اوپن ہارٹ سرجری کروا ہی نہیں رہے بلکہ ڈاکٹرز کی ہدایات کا انتظار کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ کسی شخص کو اتنا عرصہ کارڈیالوجی سینٹر میں رکھا گیا ہو جتنا انور مجید کو رکھا گیا ہے اگر انور مجید کو کوئی مسئلہ ہوا تو انکی ہارٹ سرجری کروا لی جائے گی۔ وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عبد الغنی مجید کو ہومرائیڈ کی سرجری کرانی ہے عبد الغنی مجید کے ہیموگلوبن بھی کم ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سرجری کرانے پر ہمارا اور آپ کا اختلاف نہیں ہے سرجری بے شک کرائیں لیکن پہلے دونوں کو جیل بھیجیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے کہا کہ جب سرجری کا وقت ہو تو ان کو ہسپتال منتقل کر دینا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق انور مجید اور عبدالغنی مجید دونوں ہسپتال نہیں رہ سکتے۔ حسین لوائی سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تو ویسے ہی فٹ ہیں انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کو بھی میرا ایک پیغام دے دیں ان ملزموں کو رعایت دینے کی کوشش کی گئی تو برداشت نہیں کریں گے۔اگر انور مجید اور عبدالغنی مجید کو سپرینٹینڈنٹ کے کمرے بٹھایا گیا تو اچھا نہیں ہو گا۔چیف منسٹر صاحب اب یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ان کے لیے سپریٹنڈنٹ کا کمرہ حاضر ہے اگر ہمیں پتا چلا تو ہم کارروائی کریں گے۔
جعلی اکا¶نٹس کیس