قومی اسمبلی میں شہباز شریف منی بجٹ پیش کرنے پر وزیر خزانہ پر برس پڑے
پیر کی شام قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس عاشورہ محرم کی تعطیلات کے بعد منعقد ہوئے۔ دونوں ایوانوں میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے پیش کئے گئے منی بجٹ، 2018-19 پر بحث کا آغاز ہوا ۔ قومی اسمبلی
میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے دھواں دھار تقریر کی جبکہ سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم نے منی بجٹ کو تختہ مشق بنایا۔قومی اسمبلی میں میاں محمد شہباز شریف کا قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے پہلا خطاب تھا۔ میاں شہباز شریف ماضی میں کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں لیکن انھوں نے ہمیشہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو ترجیح دی۔ موجودہ حالات میں انھیں مجبوراً قومی اسمبلی میں آ کر میاں نواز شریف کی کمی کو پورا کرنا پڑا ہے۔ انھیں پہلی بار قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنے جوہر خطابت دکھانے کا موقع ملا ہے، انھوں نے کم و بیش ایک گھنٹہ تک فی البدیہ تقریر کی انھوں نے وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسد عمر کی طرف سے پیش کیے گئے منی بجٹ کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ اسد عمر کو عوام پر مہنگائی کا ’’بم‘‘ پھینکنے پر آڑے ہاتھوں لیا اور وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر پر برس پڑے جس کا وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے جواب دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیر کو میاں شہباز شریف نے پارلیمنٹ ہائوس میں جہاں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی وہاں انھوں نے اپنے چیمبر میں مسلم لیگ
ن کے ارکان پارلیمان سے ملاقاتیں کیں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جہاں انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے قائم کی جانے والے خصوصی کمیٹی کے ارکان رانا ثناء اللہ ،مرتضیٰ جاوید عباسی، احسن اقبال، کی نامزدگی کا اعلان کیا گیا وہاں وزیراعظم ڈیم فنڈ میں ایک ماہ کی تنخواہ دینے کی تجویز بھی زیر غور آئی لیکن پارلیمانی پارٹی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 123 ارب روپے کے فنڈز دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فراہم کئے ہیں جب کہ شاہد خاقان عباسی حکومت نے موجودہ بجٹ میں بھی بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کیے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ارکان نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پارٹی کا اصولی موقف یہ ہے کہ ہم چندے کی مخالفت تو نہیں کرتے، لیکن اتنے بڑے پراجیکٹ چندے سے نہیں بنا کرتے لہذا یہ تجویز ڈراپ ہو گئی۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پیر کو میاں شہباز شریف نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اپوزیشن بنچوں کو مایوس نہیں کیا، ایسا دکھائی دیتا تھا کہ انھوں نے منی بجٹ کے بارے میں پوری تیاری کر رکھی ہے۔ اگرچہ میاں شہباز شریف کبھی وزیرخزانہ نہیں رہے لیکن ان کی تقریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مالی امور پر انھیں بھرپور دسترس حاصل ہے اور وہ حکومت کی مالی پالیسیوں کا ’’ آپریشن ‘‘کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں جہاں تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت تشکیل دینے اور اتفاق رائے سے اس پر دستخط کرنے کی پیش کش کی وہاں انھوں نے کہا کہ پوری قوم کو اس بات کا علم ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ عام انتخابات میں دھاندلی کی پیدا وار ہے، ان کے ان ریمارکس پر حکومتی بینچوں کو سانپ سونگھ گیا، کسی نے صدائے احتجاج بلند کی اور نہ ہی کوئی شور شرابا کیا گیا بلکہ تحمل سے ان کی بات سنی گئی۔جب انھوں نے ایک موقع پر انھوں نے ’’شہد‘‘ کی بات کی تو حکومتی بنچوں سے دو تین ارکان نے ہوٹنگ کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں خاموش کرا دیا گیا۔ میاں شہباز شریف نے اپنی تقریر میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا بھی خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ ہم لیکن ہم جو پارلیمان میں بیٹھے ہیں وہ 2018 کے انتخابات کے نتائج کو دوام بخشنے کے لئے نہیں بلکہ جمہوریت کے فروغ اور اس کی شمع کو جلائے رکھنے کے لئے آئے۔ انھوں نے چین کے وزیر خارجہ کی پاکستان آمد پر بے رخی کے ساتھ استقبال پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم پاک چین دوستی میں کسی کو دراڑ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہماری حکومت نے نان فائلرز کا ناطقہ بند کیا تھا، لیکن موجودہ حکومت نے ٹیکس چوروں کا راستہ کھول دیا، اب نان فائلرز ’’گھنگرو‘‘ ڈال کر پراپرٹی اور گاڑی خرید سکتے ہیں، یہ نئے پاکستان کی تبدیلی ہے۔ ایمانداری ہار گئی اور بے ایمانی جیت گئی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر علالت کے باعث اجلاس کی صدارت نہ کر سکے، ان کی جگہ نو آموز ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کی صدارت کی۔وہ ایک نئے ڈپٹی سپیکر کی حیثیت سے جتنی غلطیاں کر سکتے تھے، انھوں نے کیں اور ان کو قومی اسمبلی کے سیکرٹری سمیت دیگر عملہ ’’پرچیوں‘‘ کے ذریعے گائیڈ لائن دیتا رہا۔ ایک موقع پر قاسم سوری نے آرڈر ان ہائوس کی بجائے آرڈر آف ہائوس کے الفاظ استعمال کئے جبکہ پارلیمانی سیکرٹری نے ملکہ بخاری کو توجہ دلائو نوٹس کا مختصر ’’تفصیلی جواب‘‘ دینے کی ہدایت کی۔ اس طرح گاہے بگاہے ان کی جانب سے لطائف اور پھلجھڑیاں ارکان اسمبلی کو محظوظ کرتی رہیں۔ سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر لیٖفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم نے حکومت کے منی بجٹ پر نشتر چلائے اور منی بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کی۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر سردار یعقوب ناصر نے منی بجٹ پر عمدہ تقریر کی۔مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ (ن) لیگ معاشی شرح نمو کو 2.8سے5.4تک لے کر گئی ،مہنگائی کو کم کیا گیا، سٹاک ایکس چینج کا انڈیکس19ہزار سے53ہزار تک پہنچ گیا، ٹیکس وصولی 1900 سے 3900ملین تک پہنچ گئی ،معاشی حجم 22ہزار بلین سے 34ہزار بلین تک پہنچ گیا ہے ۔سینیٹر یعقوب خان ناصر نے کہا کہ عوام کی توقعات تھیں کہ نئی حکومت آتے ہی اچھے اقدامات کرے گی لیکن حکومت نے ٹیکسوں اور مہنگائی کی بھرمارکردی ہے ، قائد ایوان شبلی فراز نے کہا ہے کہ ہمارا گردشی قرضہ12کھرب تک پہنچ گیا ہے ، گردشی قرضہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے، لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حقیقی ہے ، گزشتہ سات مہینے میں کہا گیا کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی ہے ، بجلی ہر ایک کو دی گئی جو بل نہیں بھی دیتا تھااسے بھی بجلی دی گئی ،بجلی کی قیمتیں مصنوعی طریقے سے روکی گئیں ،نتیجتاً ہمارے لئے ایک اژدھا کھڑا ہو گیا ، ہمیں یہ رپورٹ مرتب کرنے میں 380گھنٹے لگے ہیں ، سینیٹ میں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کو کویت کے ویزوں کی حصولی میں درپیش مشکلات کا معاملہ کویت کے سامنے اٹھایا جائے گا،کویت میں 1لاکھ14ہزار پاکستانی مقیم ہیں ،2011میں کویت نے ویزے دینا بند کردیئے تھے۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان بالا میں توجہ دلائونوٹس کے جواب میں دلچسپ انکشاف کیا کہ یو این ڈی پی کی رپورٹ میں بلوچستان کو دنیا کا پسماندہ ترین صوبہ قرار نہیں دیا گیا،ایسی کوئی رپورٹ نہیں ہے ، سینیٹ میں اپوزیشن نے منی بجٹ کو بے لگام مہنگائی کا پیغام اور تر قی کا جنا زہ قرار دیتے ہوئے ٹیکسوں میں اضافہ مسترد کر دیا ، سینیٹر مصدق ملک ، عبدالغفور حیدری اور مظفر حسین شاہ نے کہا ہے کہ نیا پاکستان تو بہت ہی پرانا پاکستان نکلا ، کنٹینر پر بلندوبالا دعوے کئے گئے تھے ، 8بھینسیں ، گاڑیاں بیچنے اور بسکٹ کھلانے کے بعد اخراجات کہاں کم ہوئے ہیں یہ چیزیں بجٹ میں نظر نہیں آرہیں، پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے حکومت کی توجہ اہم مسائل کی طرف مبذول کرائی اور کہا ہے کہ وزیراعظم ایوان بالا میں آ کر بھارت سے مذاکرات اور گوادر کو سٹی آف آئل بنانے کے حوالے سے اعتماد میں لیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت اگر لڑنا چاہتا ہے تو ہم مزید 70 سال بھی لڑ سکتے ہیں، سی پیک سے پاکستان میں بہت بڑا بوم آنے والا ہے۔ بھارت نے اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے بہانا بنایا، بھارت کی اندرونی سیاست سے متاثر نہیں ہوں گے، کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔