حکومت کو دوسری بار شکست ، انکم ٹیکس نئی شرح کے یکم جولائی سے اطلاق کی تجویز مسترد
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) انکم ٹیکس کی نئی شرحوں کا اطلاق یکم جولائی سے کروانے کی حکومتی تجویز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے مسترد کر دی اور اس معاملہ پر حکومت کو دوسری بار شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ سینٹ کمیٹی میں منی بل پر غور جاری رہا، کمیٹی نے غیر تنخواہ دار ٹیکس گزاروں پر انکم ٹیکس کی شرح میں کئے گئے29فیصد اضافہ کو کم کر کے 20 فیصد تک لانے اور تنخواہ دار ٹیکس گزاروں کیلئے انکم ٹیکس کی شرح میں کئے گئے 25فیصد اضافہ کو کم کر کے20فیصد تک لانے کی تجویز منظور کر لی ہے جبکہ نان فائلرز پر 50 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے گھر، ملکی بنی نئی گاڑی اور نئی گاڑی کی ملک میں درآمد پر عائد پابندی اٹھانے کی حکومتی تجویز بھی سینٹ کمیٹی کے اراکین کی حمایت حاصل نہ کر سکی اور اس تجویز پر بھی حکومت کو شکست ہوتے ہوتے رہ گئی، وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہار نے جمعرات کو اس تجویز کی جگہ کوئی نئی تجویز کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی حامی بھر لی۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیرصدارت ہونے والے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بجٹ تجاویز پر گرما گرمی کا سلسلہ کمیٹی کے تیسرے روز کے اجلاس میں بھی جاری رہا۔ سینیٹر ہارون اختر خان کا موقف تھا کہ آئین سابقہ تاریخوں سے کسی پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کرنے کی مخالفت کرتا ہے تاہم ہم چاہتے ہیں کہ جس دن صدر پاکستان اس ضمنی فنانس بل پر دستخط کر دیںاسی دن سے اس کا اطلاق ہو جائے۔ ممبر انکم ٹیکس محمد اقبال نے موقف اختیار کیا کہ انکم ٹیکس کی اضافہ شدہ شرحوں کا اطلاق 1جولائی2018سے ہونا ضروری ہے کیونکہ ہم کسی ٹیکس سال کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کر سکتے اس تمامتر بحث کے بعد متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ جس تاریخ سے صدر پاکستان ضمنی فنانس بل پر دستخط کریں گے اسی دن سے ان اضافہ شدہ ٹیکس کی شرحوں کا اطلاق ممکن بنایا جائے، چیئرمین کمیٹی سنیٹرفاروق ایچ نائیک کا موقف تھا کہ کسی بھی پاکستانی کے حقوق اس کی قومی ذمہ داریوں کے بغیر ممکن نہیں اگر کوئی کروڑ کے گھر اور گاڑیاں خرید رہے ہیں تو ان سے ہر صورت میں ٹیکس لیا جائے۔ سنیٹر مصدق ملک نے کہا کہ جو فرد کروڑوں کمانے کے باوجود ٹیکس ادا کرنے کی آئینی اور قومی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے تو اس جائیداد اور گاڑی کی خریداری پر پابندی سے اس کا کوئی آئینی و قومی حق مجروح نہیں ہوتا لہٰذا حکومت یہ پابندی نہ اٹھائے۔