• news

خارجہ پالیسی پر پاکستان کو خفت اٹھانا پڑی ، خواجہ آصف: اپوزیشن میں آتے ہی معاملہ یاد آگیا ، شیریں مزاری

اسلام آباد(نوائے وقت نیوز) مسلم لیگ (ن) کے رہنما رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف نے حکومت کی خارجہ پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی سے پاکستان کو سخت دھچکا لگا ہے اور ہمیں شرمندگی اٹھانا پڑی ہے، وزیراعظم نے 6 ستمبر کی تقریر میں پانچ اسلامی تاریخوں کا حوالہ دیا جن میںسے تین تاریخیں غلط تھیں، بھارت کے ساتھ مذاکرات میں کشمیر کے ایشو کو نہ بھولا جائے، ہماری حکومت نے 122 ارب روپے سے بھاشا ڈیم کیلئے زمین خریدی، کوئی ملک اس طرح سے شہریت نہیںدیتا جس طرح سے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے جب اتحادیوں نے اس پر اعتراض کیا تو کہا گیا کہ یہ تجویز ہے، موجودہ منی بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ پرآف آرڈر میں کیا۔ خواجہ آصف نے کہا امریکہ نے کہا ہے کہ ہم تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں بھارت نے نہ صرف پاکستان پر الزام لگایا بلکہ ایک ایک کرکے تمام الزامات لگائے اور ان تنظیموں کا نام لیکر بدنام کیا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ فرانس سے کال آئی اور ہم نے جواب نہیں دیا بھارت کے ساتھ خط و کتابت ہوئی وزیراعظم سعودی عرب گئے پارٹی کے لوگوں نے کہا کہ دس ارب ڈالر لیکر آئے ہیں پتہ نہیں ارب الف سے تھا یا ع سے۔ پھر تردید کی۔ سی پیک کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کو دوبارہ دیکھا جا رہا ہے اس میں ستر ممالک شامل ہوچکے ہیں اس طرح کے پانچ اقتصادی راہداری کے منصوبے ہیں جس کی بعد میں حکومت کو تردید کرنا پڑی۔ پاکستان میں پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے اس بجٹ کے بعد مہنگائی کا طوفان آیا ہے اس حوالے سے میڈیا اور لوگ پوچھ رہے ہیں۔ ان مہاجرین کو مدینہ کے مہاجرین کے ساتھ ملایا جارہا ہے میں ایسا نہیںکرسکتا۔ بلوچ، مہاجرین کی وجہ سے پریشان ہیں جبکہ پٹھان ان کو خوش آمدید کہتے ہیں ہم نے یہ بات بار بار انٹرنیشنل سطح پر اٹھائی ہے اور افغانستان سے کہا ہے کہ ان کو واپس لیتے ہیں یہ فوج میں بھرتی ہوگئے ہیں اور ایشیا کپ میںکھیل رہے ہیں کوئی ملک اس طرح سے شہریت نہیں دیتا، سب سے پہلے والدین کی شہریت کا پتہ چلنا چاہیے پھر دیکھنا چاہیے اس پر حکومت نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ ہمیں کلبھوشن کا طعنہ دیا گیا۔ تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے پر اس طرح کا الزام لگایا گیا۔ حمود الرحمن کمیشن میںجن لوگوں کا نام آیا وہ سب کو پتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے مسئلے کو سب حل کرنا چاہتے ہیں چیف جسٹس نے ڈیم کی بات کی ہے، ڈیم کے چندے میں ہماری فوج کی طرف سے ایک ارب روپے دیئے گئے، ربیع کی فصل کیلئے 46فیصد پانی کی کمی ہے، یہ قومی مسئلہ ہے جب تک ڈیم نہیں بنیں گے، مسئلہ حل نہیں ہوگا، ہماری حکومت نے 122ارب روپے سے بھاشا ڈیم کیلئے زمین خریدی گئی۔ اگر بیس ارب روپے سالانہ رکھیں تو اس کو مکمل ہونے کیلئے نو سے دس سال لگیںگے، ڈیم کیلئے بھی ہم نے کام کیا ہے۔ اگر 3.7ارب روپے ڈیم کیلئے اکٹھا ہوا ہے بہت اچھی بات ہے 1958میں پہلی دفعہ سکردو میں ڈیم کی پہلی سٹڈی ہوئی تھی اگر پانی کو سمندر میں گرنے سے پہلے اس کی مینجمنٹ کرلیں تو کالا باغ ڈیم کی ضرورت نہیں ہے، پانی کے حوالے سے ایک اچھی پالیسی بنانی چاہیے، انہوں نے کہا کہ بھارت سے ہمارے تعلقات کا انحصار کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے ہے کشمیر میں بھارت ظلم کررہا ہے، ایک نسل اپنی قربانیاں دے رہی ہے، بھارت سے تعلقات میں کشمیرکو نہ بھولیں، بھارت پاکستان میں دہشتگردوںکی پشت پناہی کرتا ہے، خطرہ افغانستان سے کرے یا کسی اور جگہ سے خارجہ پالیسی پر ایسی کوئی معاہدہ نہ کیا جائے جس کے نتائج بعد میں بھگتنا پڑیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے لئے مانگتے کچھ اور ہیں دے کچھ اور دیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں صرف چھاؤنیاں بہت تیزی سے بنی ہیں، ہمیں چھاؤنیوں کی نہیں کالج اور یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے، بلوچستان میں خواتین پانی کی قلت کی وجہ سے خودکشیاں کر رہی ہیں، کچھی کینال میں ناقص میٹریل کی وجہ سے جگہ جگہ سے ٹوٹ گئی، نارنگ ڈیم کے لئے پی ایس ڈی پی میں رقم رکھی جائے اس کو سابق حکومتوں نے اس کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا۔ ہماری اقتصای اور خارجہ پالیسی آزاد بھی ہے اور نہ ہی اندرونی پالیسی پاکستان کی کبھی خودمختار رہی ہے یہ سب کچھ کشکول کی مرہون منت ہیں جب تک معاشی طور پر خودمختار، خارجہ پالیسی منتخب نمائندوں کے پاس نہیں آئے گی اور کنٹرول جمہوریت کے بجائے جمہوریت کو ہم اپنے کنٹرول میں نہیں لیں گے تو ہمیں ہر پانچ سا ل بعد تیار رہنا ہو گا جو اس سال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال کی پی ایس ڈی پی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ پیسے رکھے گئے مگر اس پر کٹ لگا دیا گیا۔ سی پیک گوادر کی وجہ سے ہے مگر گوادر کے مکینوں کو اپنے مقاصد کے لئے منتقل کیا گیا اور 25 کلومیٹر دور ان کو آباد کر دیا گیا۔ بلوچستان کے سردار تعلیم اور ترقی کے خلاف نہیں ہیں۔ وزیراعظم بلوچستان میں کینسر ہسپتال کا اعلان کریں۔ انہوں نے گلہ کیا کہ ہم مانگتے کچھ اور ہیں اور دے کچھ اور دیاجاتا ہے جس تیزی کے ساتھ چھاؤنیاں بن رہی ہیں وہ کسی جگہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں غیریقینی کی صورتحال ہے۔ اس کے ذمہ دار خود سیاستدان ہیں کیونکہ ہم میں اتفاق نہیں ہے۔ کوئی جج دوسرے جج کے خلاف کوئی جنرل کسی دوسرے جنرل اور کوئی بیورو کریٹ دوسرے بیورو کریٹ کے خلاف نہیں بولتا ہے مگر سیاستدان ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایوان میں ریٹائرڈ ججوں، جنرلوں اور بیورو کریٹس کی ملک کے اندر اور بیرون ملک جائیدادوں اور ان کی شہریت کے حوالے سے ایوان میں رپورٹ پیش کی جائے۔ نواب یوسف تالپور نے کہا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے زراعت کے شعبے پر اثرات مرتب ہوں گے‘ ارسا کے بیان کے خلاف تحریک استحقاق لائوں گا۔اگر کالا باغ ڈیم بنا تو پورا سندھ بنجر و صحرا میں تبدیل ہوجائے گا۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں چار سالوں تک وزیر خارجہ کا تقرر نہیں کیا گیا‘ سابق حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں تھی‘ جب میاں نواز شریف مودی کی حلف برداری میں گئے تو پہلی مرتبہ وزیراعظم پاکستان حریت کانفرنس کے وفد سے نہیں ملے‘ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کے مسائل کو حل نہیں کیا وہاں پر استحصال ہوتا رہا‘ ہمارا وژن اور ارادہ ہے کہ بلوچستان اور گوادر کی ترقی کے ثمرات عام بلوچ تک پہنچائیں گے‘ لاپتہ افراد کے معاملے کو اتفاق رائے سے حل کریں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ محمد آصف اور اختر مینگل کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ خواجہ آصف نے ایوان میں اسد عمر کے خاندان کو نشانہ بنایا جو افسوسناک ہے‘ خواجہ آصف کو یاد نہیں کہ جنرل عمر کے ایک بیٹے کو سابق حکومت نے گورنر بنایا تھا‘ خواجہ آصف کا یہ طرز عمل غلط ہے، ان کے الفاظ کو ریکارڈ سے حذف کیا جائے‘ ہمیں اس طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس اسمبلی کو اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ اب خارجہ پالیسی بن رہی ہے اور اس پر بحث بھی ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی کوئی قرارداد آتی تھی اور کچھ عرصہ بعد حکومت اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی۔ اب خواجہ آصف کو یاد آیا کہ خارجہ پالیسی پر ایوان میں بحث کرنی چاہیے۔ پانچ سال تک ان کو توفیق نہیں ہوئی‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پاکستان کے حوالے سے بیان دیا تو حکومت کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا‘ مسلم لیگ (ن)کو پانچ سال بعد یاد آیا کہ خارجہ پالیسی ہونی چاہیے‘ اس پر مسلم لیگ کو مبارکباد دینی چاہیے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی میں جب ہم نے بین الاقوامی معاہدوں کو اسمبلی میں پیش کرنے کی تجویز پیش کی تو اسے اسے رد کردیا گیا۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر مارچ 2017ء میں حکومت نے آئی سی جے کو خط لکھا کہ ہم آپ کو آزادانہ جیورسڈکشن نہیں دیں گے‘ خط چلا گیا۔ مشکل سے مہینہ گزرا تھا کہ بھارت آئی سی جے میں گیا اور ہم نے آئی سی جے کی جیورسڈکشن قبول کرلی۔ یہ ایک غلطی تھی۔ دوسری غلطی یہ کی گئی کہ ہمارے کہنے کے باوجود متبادل جج کی تعیناتی نہیں کی گئی۔ ہم نے اس پر اعتراضات کئے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ہم ایسے کیس میں پھنس گئے جس کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے کشمیر کی بات بھی کی ہے لیکن وہ بھول گئے کہ جب میاں نواز شریف نریندر مودی کی حلف برداری تقریب میں گئے تھے تو پہلی بار ایسا ہوا جب وزیراعظم پاکستان حریت کانفرنس کے وفد سے نہیں ملے۔ کشمیر کو انہوں نے کیا اہمیت دی ہے یہ سب کو پتہ ہے۔ ہم کئی سالوں تک پوچھتے رہے کہ کشمیر کمیٹی کے اخراجات اور کامیابیوں کا بتایا جائے۔ پچھلی حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں تھی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہم مسلم ممالک کی جنگوں میں نہیں پڑیں گے اور ان کے تنازعات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔اسی طرح ایران کے وزیر خارجہ کا دورہ بھی اہمیت کا حامل تھا۔ ایران نے پیغام بھیجا کہ ہم پاکستانی قیدیوں کے مسائل حل کریں گے۔ اس سے واضح ہے کہ دنیا اب ہمیں اہمیت دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلی بار برطانوی حکومت نے منی لانڈرنگ اور منظم جرائم کے ایشو پر ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں بدانتظامی کی بات بھی ہوئی ہے اس حوالے سے ان سے پوچھا جائے جو گزشتہ کئی برسوں سے کراچی میں برسراقتدار ہیں۔انہوں نے کہا کہ بنگالی اور بہاریوں کی سٹیزن شپ کا مسئلہ بہت پرانا ہے‘ کسی میں ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس معاملے کو حل کریں۔ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ مشاورت کرکے اس معاملے کو حل کریں۔ مینگل صاحب نے اچھی تقریر کی ہے‘ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کے مسائل کو حل نہیں کیا وہاں پر استحصال ہوتا رہا۔ ہمارا وژن اور ارادہ ہے کہ بلوچستان اور گوادر کی ترقی کے ثمرات عام بلوچ تک پہنچائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن