• news

ہائیکورٹ نے نواز شریف ، شہباز سمیت 9لیگی رہنمائوں ،بیوروکریٹس کو طلب کرنیکی درخواست مسترد کردی

لاہور (وقائع نگار خصوصی+ ایجنسیاں) لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے اکثریتی رائے سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف، شہباز شریف سمیت 9 سیاستدانوں اور تین بیوروکریٹس کو طلب کرنے کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ عوامی تحریک کی درخواست پر 3رکنی فل بنچ نے دو ایک سے اکثریتی فیصلہ دیا۔ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف، شہباز شریف اور دیگر سابق وزراء و بیوروکریٹس کو استغاثہ میں طلب کرنے کے لیے دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اے ٹی سی کا نواز شریف، شہباز شریف سمیت نو سیاستدانوں اور تین بیوروکریٹس کو طلب نہ کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔ اے ٹی سی نے عوامی تحریک کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے تمام گواہوں کو طلب کیا۔ نواز شریف، شہباز شریف سمیت بارہ فریقین کو طلب نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان پر عائد الزامات کی نوعیت ٹھوس شہادتوں پر مبنی نہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف سمیت 12 فریقین پر سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے کوئی الزام نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں ٹرائل کورٹ کو انکوائری کا حکم نہیں دے سکتے۔ جسٹس محمد قاسم خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ کسی شخص کے خلاف دائر درخواست میں عائد کئے جانے والے الزامات کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے، عدالت میں طلبی ملزم کے حقوق کی پامالی کی بجائے اسے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اختلافی نوٹ میں ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ عدالت ماہرین پر مشتمل ٹیم کے ذریعے سانحہ ماڈل ٹائون کی مزید تحقیقات کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ جواد حامد نے نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف،حمزہ شہباز، چوہدری نثار، میجر ریٹائرڈ اعظم سلمان، ڈاکٹر توقیر شاہ اور دیگرکی طلبی کی استدعا کی تھی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی درخواست پر سماعت کرنیوالا فل بنچ 5 بار تحلیل ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی درخواستوں پر تقریباً چار سال سماعت جاری رہی۔ چیف جسٹس نے ہائیکورٹ کو دو ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ فیصلے سے قبل لاہور ہائیکورٹ میں سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ درخواست گزار کے وکلا نے دلائل دیے کہ سانحہ ماڈل ٹائون ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت ن لیگ کی اعلی سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سردار احمد نعیم نے اکثریتی فیصلہ جاری کیا۔ ہائی کورٹ نے سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی درخواست بھی خارج کرتے ہوئے ان کی اے ٹی سی میں پیشی کا حکم برقرار رکھا اور سابق آئی جی کو اے ٹی سی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے طلب کئے جانے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔ دوسری جانب محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ شریف برادران کو طلب نہ کرنے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ جن گرائونڈز پر پولیس افسر طلب کیے گئے ان سے زیادہ ٹھوس شواہد شریف برادران اور حواریوں سے متعلق مقدمہ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ فیصلہ آنے کے بعد اپنی رہائش گاہ پر وکلاء اور پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے ہنگامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ فیصلے پر حیرت ہے سانحہ ماڈل ٹائون کا قتل عام دنیا نے قومی ٹی وی چینلز کے ذریعے براہ راست دیکھا۔ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ سانحہ کے حوالے سے اپنے تعلق کا اعتراف جسٹس باقر نجفی کمشن کے روبرو بیان حلفی دیکر کر چکے ہیں اور طلب نہ کیے جانے والے افراد عدالت کے حکم پر درج ہونے والی ایف آئی آر کے بھی نامزد ملزم ہیں جنہوں نے اپنے عہد اقتدار میں ملازمین پر مشتمل جعلی جے آئی ٹی بنا کر کلین چٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے کہا کہ شریف برادران اور حواریوں کے کردار کا تعین ٹرائل کورٹ کو کرنا چاہئے۔ بالا بالا کلین چٹوں کا اجرا انصاف اور قانون کی روح کے خلاف ہے۔ دریں اثناء ترجمان نوراللہ صدیقی کے مطابق ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹائون اور آئندہ کی قانونی چارہ جوئی سے متعلق 27 ستمبر (جمعرات) دوپہر 2 بجے مرکزی سیکرٹریٹ 365 ایم بلاک ماڈل ٹائون لاہور میں تفصیلی پریس کانفرنس سے خطاب کرینگے۔عوامی تحریک کے وکلاء نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں فیصلے کیخلاف اپیل کریں گے۔ وفد نے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے ملاقات کی اور استغاثہ کے فیصلے کے مختلف پہلوئوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن