ن لیگ شاہد خاقان عباسی کی جیت پُر امید
فرخ سعید خواجہ
پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز، کیپٹن صفدر کے ہمراہ جاتی عمرہ رائے ونڈ میں حالت سوگ میں ہیں۔ میاں نواز شریف سے اُن کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت کرنے آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض سیاسی لوگ اور چند میڈیا والے پریشان ہیں کہ میاں نواز شریف خاموش کیوں ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بھاری نقصان کو ایسے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں جو زیادہ بے درد ہیں وہ میاں صاحب کی خاموشی کو ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں رنگ برنگی کہانیاں مارکیٹ کی گئی ہیں تاہم سنجیدہ سیاسی حلقے سمجھتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز کے چالیسیویں کے بعد میاں نواز شریف دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں گے۔ جس طرح میاں نواز شریف کے حوالے سے افواہوں کا بازار گرم ہے اسی طرح ملک کے سابق صدر آصف زرداری بھی خبروں میں ہیں۔ قومی اسمبلی میں صدر اور وزیراعظم کے انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی کے غیر متوقع رویے کو آصف زرداری کی اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ انڈر سٹینڈنگ کا نتیجہ قرار دیا جاتا رہا ہے تاہم اب سپریم کورٹ کی جانب سے آصف زرداری اور ان کے بچوں کے اثاثہ جات کے حوالے سے پندرہ روز میں رپورٹ طلب کرنے کے احکامات نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور عام تاثر یہی ہے کہ آصف زرداری مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ اُدھر پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلے کم کئے جانے کے حوالے سے جاری کوششوں میں یقیناً پیش رفت ہوئی ہے۔ جس سے سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم بارے گفتگو کی جا رہی ہے۔ ادھر حکمران جماعت پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک ماہ پورا ہو چکا ہے۔ اس ایک ماہ کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت نے پرانے پاکستان کو نئے پاکستان میں ڈھالنے کی متعدد کوششیں کی ہیں جن میں سے بعض کو سراہا جا رہا ہے اور چند ایک پر تنقید کی جا رہی ہے۔ صرف ایک ماہ کی حکومت پر تبصرہ یقیناً مناسب نہیں ہو گا البتہ حکمرانوں کو محض پچھلی حکومت کے کاموں کو سیاہ کارنامے بنا کر پیش کرنے اور اُن کے جاری منصوبوں کوکھٹائی میں ڈالنے سے اُن کا حامی بے شک خوش ہو لیکن عام لوگ جو ماضی کی حکومتوں کی نسبت موجودہ حکومت سے اپنے مسائل کا حل اور ریلیف لینا چاہتے ہیں وہ یقینا اس روش کو پسند نہیں کریں گے ۔ جوں جوں وقت گزرے گا حکمرانوں پر مسائل کے حل کیلئے عوام کا دباؤ بڑھتا جائے گا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت کے مخالفین بھی اپنی صفیں درست کرکے حکومت کے سامنے آ کھڑے ہوں گے سو حکمران جماعت کے لئے بہتر ہے کہ آئین اور قانون پر عمل کرتے ہوئے ملک اور صوبے کے معاملات کو چلائیں ۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار کے بارے میں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ہونے کا پروپیگنڈہ شروع ہو چکا ہے اور اسے وزیراعظم عمران خان کی لاہور میں سرگرمیوں ، کابینہ کو براہ راست احکامات سے تقویت مل رہی ہے ان حالات میں 14اکتوبر کو لاہور میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی دو دو نشستوں پر ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں بلاشبہ ان انتخابات کے نتائج سے پارٹیوں کی مقبولیت کو جانچا جا سکے گا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز کی خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 124پر مسلم لیگ ن نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو میدان میں اتارا ہے ان سے پہلے اس حلقہ انتخاب میں میاں حمزہ شہباز ، خواجہ سعد رفیق، نواز شریف، شہباز شریف، قومی و صوبائی اسمبلی کی دونوں دونوں نشستیں جیتتے رہے ہیں ۔1990سے یہ حلقہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے لئے ناقابل شکست رہا ہے ۔ اس حلقہ انتخاب کے رہائشی پیپلزپارٹی کے چوٹی کے رہنما جہانگیر بدر مرحوم 1988میں یہاں سے قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر وفاقی وزیر پٹرولیم بنے تھے اس کے بعد مرحوم یہاں مسلسل ہارنے کے بعد اپنا حلقہ انتخاب تبدیل کر گئے تھے ۔ پی ٹی آئی نے اس حلقہ انتخاب میں غلام محی الدین دیوان کو شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں کھڑا کیا ہے دونوں جماعتوں کے امیدواروں کی انتخابی مہم زور شور کے ساتھ جاری ہے۔ غلام محی الدین دیوان کا کہنا ہے کہ اس حلقہ انتخاب کے ووٹر ان کے حق میں اس لئے ووٹ ڈالیں گے کہ ان کا یہاں حلقے کے ساتھ ساری عمر کا تعلق ہے کشمیری برادری سے وہ خود تعلق رکھتے ہیں ۔ اور ارائیں برادری کے ساتھ ان کابیسیوں سال سے بھائی چارہ ہے دوسرے حلقے کے ووٹر کی دوسرے شہر کے باسی کو یہاں سے منتخب کروانے کے حق میں نہیں ہیں غلام محی الدین دیوان کے دعوے اپنی جگہ پی ٹی آئی کے الیکشن 2013کی نسبت الیکشن2018میں ووٹ بڑھ جانا بھی اپنی جگہ لیکن مسلم لیگ (ن )کے امیدوار میاں حمزہ شہباز جتنی بھاری اکثریت سے الیکشن 2018جیتے تھے ، عام ووٹر کی رائے ہے کہ مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی کی بھاری اکثریت سے جیت یقینی ہے۔تاہم فیصلہ 14 اکتوبر کو ووٹروں نے کرنا ہے۔قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے این اے 131میں وزیراعظم عمران خان کی خالی کردہ نشست پر ضمنی الیکشن بھی عوام کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کے امیدوار ہمایوں اختر خان اور مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔ ہمایوں اختر خان اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنان بھی ان کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ ہمایوں اختر خان کے حامی پر جوش ہیں کہ میدان مار لیں گے۔ادھر مسلم لیگ (ن) اور خواجہ سعد رفیق کے ووٹر اور سپورٹر پر عزم ہیں کہ انہوں نے الیکشن 2018 میں ہونے والی دھاندلی کا بدلہ خواجہ سعد رفیق کو جتوا کر لینا ہے۔خواجہ سعد رفیق کی منظم انتخابی مہم سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے الیکشن 2018 کی انتخابی مہم کی خامیوں پر بخوبی قابو پا لیا ہے۔