• news
  • image

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک صفحہ پر

شہزاد چغتائی
پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کے درمیان رابطے قائم ہوگئے لیکن حکومت کے خلاف تحریک بدستور سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ 18اگست کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان چین کی بانسری بجارہے ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) تحریک انصاف کو واک اوور دینے کے موڈ میں نہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان نے مسلم لیگ کی حکومت کو سانس لینے کا موقع نہیں دیاتھا شاید یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نئی حکومت کے ساتھ کسی رعایت کے حق میں نہیں۔پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ن) کے درمیان رابطے تو قائم ہیں لیکن بات نہیں بن رہی۔ سابق صدر آصف زرداری اوربلاول بھٹو کی سابق وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کے بعد توقع تھی کہ برف پگھل جائے گی لیکن سیاسی ماحول پر جمود طاری ہے مسلم لیگ(ن) بدستور پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ٹف ٹائم دیاجاسکے نواز شریف ایسے سیاستدان ہیں جوکہ نامساعد حالات میں بھی شکست تسلیم نہیں کرتے وہ ادھر ڈوبے ادھر سے نکلے کی اصول پر عمل پیرا رہتے ہیں اورڈوب کر بھی باہر آجاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی بے وفائی اپنی جگہ لیکن جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے اورآصف علی زرداری سے مدد مانگ لی ہے ۔ مسلم لیگ(ن) پہلے مرحلے میں ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مشترکہ امیدوار کھڑا کرناچاہتی ہے۔ کراچی میں مسلم لیگ کے حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی ساتھ مل جائے تو اچھا ہے لیکن حکومت کے قدم ہم باآسانی اکھاڑ سکتے ہیں۔ 93ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نے محض 9ماہ کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک نجات شروع کرکے حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے بعد ان کے پائوں تلے زمین نکل گئی تھی۔اس لحاظ سے مسلم لیگ ماضی کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھائے گی۔سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ مسلم لیگ(ن) اورپیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی حالیہ ملاقات کا تعلق حکومت کے خلاف متحد ہونے سے نہیں بلکہ یہ ملاقات ضمنی انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں ہوئی۔ کراچی میں مسلم لیگ(ن) کے ذرائع نے کہا کہ قائد محمد نواز شریف نے پیپلز پارٹی سے کوئی مدد نہیں مانگی۔ لیکن مسلم لیگ(ن) اورپیپلز پارٹی ایک صفحہ پر ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان افہام تفہیم موجود ہے۔ وزیراعظم اورصدر کے انتخابات میں جو ہوا وہ ماضی کا حصہ ہے۔ سیاست کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں آگے دیکھتی ہیں۔ ماضی کو بھول جاتی ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے حلقوں کو اس بات کا ازحد افسوس ہے کہ اتحادی جماعتیں بے وفائی پر آمادہ ہیں اورسنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہیں ۔بعض جماعتوں کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ وہ کھلم کھلا یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ہم مسلم لیگ کی جنگ کیوں لڑیں اورپرائی آگ کا ایندھن کیوں بن جائیں۔سابق وزیراعظم نے حکومت کے خلاف تحریک کے احکامات جیل سے جاری کردیئے تھے لیکن پھر خاتون جمہوریت بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔ اب مسلم لیگ(ن) نے بیگم صاحبہ کے چہلم تک سیاسی سرگرمیاں معطل کردی ہیں ۔اکتوبر میں محرم الحرام کا مہینہ گزرجائے گا اس کے بعد مشاورت کا نیا سلسلہ شروع ہوگا اورنئے فیصلے ہوں گے۔ سابق وزیراعظم اس وقت زندگی کے سب سے عظیم سانحہ سے دوچار ہیں اورصدمہ سے سنبھل نہیں سکے ہیں۔ اسلئے وہ معاملات سے الگ تھلگ ہیں۔ اس دوران ان کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ہوئی ہے۔ مریم نواز کی کیفیت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ خیال ہے وہ چہلم کے بعد پارٹی کے رہنمائوں کے ساتھ مشاورت کی پوزیشن میں آجائیں گی۔ رائے ونڈ کی طرح کراچی کے بلاول ہائوس میں کوئی خاص سرگرمیاں نہیں ہورہی ہیں ۔پیپلز پارٹی کی تمام تر توجہ مقدمات پرمرکوز ہیں۔ اس طرح رائے ونڈ اوربلاول ہائوس میں سکوت چھایا ہوا ہے۔ بلاول بھٹو دن میں ایک دو رہنمائوں سے ملاقات کرلیتے ہیں۔ بلاول ہائوس اور رائے ونڈ کی یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔دوسری جانب سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے تحریک انصاف کراچی کے صدر کی حیثیت سے استعفیٰ دیدیا اوراستعفیٰ عمران خان کو بھجوادیا۔ فردوس شمیم نے کہا کہ بیک وقت دو عہدوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے اوراپوزیشن لیڈر کے عہدہ پر توجہ دیناچاہتے ہیں۔فردوس شمیم نقوی کے مستعفیٰ ہونے کے بعد خرم شیر زمان صدر بن گئے۔ ایک جانب سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومت سندھ کو ٹف ٹائم دے رہی ہے تو دوسری جانب وزیراعظم عمران حکومت سندھ کے ساتھ خیرسگالی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اوروزیراعظم عمران خان کے درمیان گاڑھی چھین رہی ہے۔ اب تک عمران خان اور مراد علی شاہ کی دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ایک ملاقات اسلام آباد اوردوسری کراچی میں ہوئی۔ مراد علی شاہ وزیراعظم کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ بھی گئے۔دورہ کراچی میں مراد علی شاہ نے وزیراعظم سے پسند کا چیف سیکریٹری لیا تھا کیونکہ سابق چیف سیکریٹری اعظم سلیمان کے پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی نے چیف سیکریٹری اعظم سلیمان کی تبدیلی پر غور شروع کردیا تھا۔ پھرحکومت سندھ اور وفاق کے درمیان نئے چیف سیکریٹری کے تقرر کیلئے کئی ناموں کے تبادلے ہوئے تھے لیکن کوئی بات نہیں بن سکی تھی۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کی توجہ مبذول کرائی اورممتاز علی شاہ کا نام منظور کرالیا۔انتخابات سے پہلے رضوان میمن چیف سیکریٹری تھے ۔پیپلز پارٹی رضوان میمن کو واپس لاناچاہتی تھی لیکن ناکامی ہوئی۔ 22ستمبر کو وفاق نے ممتاز علی شاہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ ممتاز علی شاہ پیپلز پارٹی کے رہنما اورسابق صوبائی وزیر زراعت مراد علی شاہ کے داماد ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن