نجی ہسپتال قصائی بن گئے‘ حکومت صحت کے شعبے پر توجہ نہیں دے رہی : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سندھ میں محکمہ جنگلات کی زمین پر قبضہ کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران سیکرٹری محکمہ جنگلات سندھ کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ، عدالت نے جنگلات کی زمین لیز پر لینے والوں کو نوٹس جاری کر دیئے جبکہ گزشتہ 30 برس میں جنگلات کی لیز پر دی گئی زمینوں کی مکمل تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میںتین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 850 ایکڑ جنگلات کی زمین الاٹ کروائی گئی۔ نجی ہا¶سنگ سکیم کے لئے جنگلات کی زمین کیوں الاٹ کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نجی ہا¶سنگ والوں نے تو آ کر کہنا ہے ہم معصوم ہیں روٹی، کپڑا اور مکان دے رہے ہیں۔ انہوں نے آ کر کہنا ہے ہم نے تو ایک ٹکا بھی نہیں کمایا۔ انہوں نے کہا جنگلات کی زمین ٹھیکے پر دی جاسکتی ہے نہ کسی کو الاٹ ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے محکمہ جنگلات کے حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ بتائیں آپ نے یہ زمین کیوں الاٹ کی۔ درخواست گزار نے مو¿قف اختیار کیا کہ 156 ایکڑ زمین سیکرٹری جنگلات سندھ کے بھائی کے نام لیز پر ہے۔ عدالت نے سیکرٹری محکمہ جنگلات سندھ کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ۔ عدالت نے سندھ میں جنگلات کی زمین لیز پر لینے والوں کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ عدالت نے گزشتہ 30 برس میں جنگلات کی لیز پر دی گئی زمینوں کی مکمل تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔ عدالت نے حکم دیا 15 روز کے اندر ناموں کے ساتھ جنگلات کی زمین لیز پر لینے والوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ عدالت کا کہنا تھالیز پر جنگلات کی زمین لینے والوں کی فہرست اخبارات میں نوٹس کے لئے شائع کریںگے۔دریں اثناءگزشتہ ماہ کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں 10 سالہ بچی امل کی ہلاکت کے ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران نجی ہسپتال انتظامیہ نے بچی کے والدین کے اس موقف کو مسترد کر دیا کہ واقعہ کے روز امل کو وقت پر طبی امداد فراہم نہیں کی گئی تاہم بچی کے والدین نے ہسپتال انتظامیہ کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا۔عدالت نے جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔سماعت کے دوران بچی کے والد عمر نے عدالت عظمیٰ کے روبرو کہا کہ ہسپتال انتظامیہ ہمیں بچی کو دوسرے ہسپتال لے جانے کا کہہ رہی تھی جس پر ہم نے ہسپتال انتظامیہ کو کہا کہ اپنا عملہ اور مصنوعی تنفس کا سامان بھی ساتھ دیں، لیکن ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ ہم نہ تو عملہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی مصنوعی تنفس کا سامان۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے جھوٹ بولنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ہوکر جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟جس کے بعدعدالت نے جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔عدالت عظمیٰ نے کمیٹی میں پولیس افسر اے ڈی خواجہ، ڈسٹرکٹ بار کا ایک نمائندہ، ڈاکٹر اور مزید ایک پولیس افسر کو شامل کرنے کی بھی ہدایت کی۔ عدالت نے تفتیشی کمیٹی کے جمع کرائے گئے او آر منظور کرلئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نجی ہسپتال قصائی بنے بیٹھے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ حکومت کی صحت کے شعبے پر توجہ نہیں رہی ،ایک بار میرے ڈاکٹر بھائی نے مجھے فون کرکے پیسوں کا تقاضا کیابھائی نے بتایا مریضوں کیلئے چندہ جمع کرکے ادویات لاتے ہیں۔25 لاکھ کے چندے سے ہسپتال کی مشینری ٹھیک کروائی۔ عدالت نے سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس