سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث افسر عہدوں سے ہٹا دیئے جائیں : عمران کی بزدار کو ہدایت
اسلام آباد/ لاہور (نمائندہ خصوصی+ خصوصی نامہ نگار+ ایجنسیاں) وزیراعظم عمران نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ٹیلی فونک رابطہ کےا اورہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کےا اور ماڈل ٹاو¿ن میں قتل عام کا نشانہ بننے والوں کو انصاف کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کےا۔ وزےراعظم نے کہا کہ نہتے شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو نظام عدل سے فرار کی اجازت نہیں دی جا سکتی، قانون کے یکساں نفاذ پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں، دیوانی و فوجداری مقدمات میں فوری انصاف تحریک انصاف کی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب ماڈل ٹاو¿ن میں قتل عام کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی یقینی بنائیں، واقعے میں ملوث افراد کو مناصب سے الگ کرکے بلاتفریق کٹہرے میں لایا جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ وزیراعظم نے ماڈل ٹاو¿ن میں قتل عام کا نشانہ بننے والے خاندانوں کو امید کی کرن دی ہے، قانون کی بالادستی کیلئے وزیر اعظم پاکستان کا ویژن قابل تحسین ہے انصاف کی امید دلانے پر وزیراعظم پاکستان کے مشکور ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ٹیلی فون کیا اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث افسروں کو عہدوں سے ہٹانے کا حکم دیدیا۔ جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ٹیلی فون کیا اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث افسران کو عہدوں سے ہٹانے کا حکم دیدیا۔ دوسری جانب طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کیس کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کےخلاف کیس ہے وہ طلب نہیں ہوئے، بنچ کے سربراہ کا اختلافی نوٹ قابل توجہ ہے، سازش کرنے اور کرانے والے دونوں کی سزا موت ہے۔50 تھانوں کے 1ہزار شوٹرز کس کے حکم پر ماڈل ٹاﺅن جمع ہوئے؟ منصوبہ بندی اور سازش کرنے والے ہمیشہ پردے کے پیچھے ہوتے ہیں، اگر پولیس کی بھاری نفری کو آئی جی نے بھیجا تو آئی جی کو راتوں رات کوئٹہ سے لاہور کس نے بھیجا؟ سانحہ کے منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈز طلب نہیں ہونگے تو ان سوالات کا جواب کون دے گا؟ پھانسی دلوانے کے لیے نہیں صرف ملزموں کی طلبی کے لیے عدالت عالیہ میں گئے تھے، سزا دینا یا چھوڑنا جرح کے بعد کا مرحلہ ہے۔ فیصلہ سناتے وقت انصاف کی روح کو پیش نظر نہیں رکھا گیا، فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں،اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرینگے، اس موقع پر خرم نواز گنڈاپور، فیاض وڑائچ، نوراللہ صدیقی، جواد حامد، چودھری شریف، سہیل رضا، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، میاں ریحان مقبول،قاضی فیض الاسلام موجود تھے۔ طاہرالقادری نے کہا کہ بنچ کے سربراہ کے 13سوال توجہ طلب ہیں اور شریف برادران کے کردار سے متعلق ہمارا بھی یہی موقف ہے۔ بنچ کے سربراہ نے 71صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا جبکہ طلبی کے خلاف فیصلہ دینے والی جسٹس نے 33صفحات پر اپنی رائے دی اور بنچ کے ایک معزز رکن نے براہ راست کوئی کمنٹ نہیں کیا، 33صفحات کے حق میں اپنی رائے دی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ اس امر میں ہمیں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ماسٹر مائنڈ شریف برادران اور ان کے حواری ہیں، انصاف ذبح ہوا، اس ملک میں طاقتور سب کچھ ہیں اور کمزور کچھ بھی نہیںہیں۔ حصول انصاف کی جنگ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے لڑیں گے۔ حصول انصاف کے لیے جو بس میں ہوا کرتے رہیں گے، ہماری سب سے بڑی جیت ہی یہی ہے کہ ہم نے اس کیس کو داخل دفتر نہیں ہونا دیا، سانحہ کے بعد بھی قربانیاں دے کر اس کیس کو زندہ رکھا اور اس کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان سے امیر قطر کے خصوصی نمائندے عبدالہادی مناالحجری نے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاک قطر تعلقات سمیت دو طرفہ تعلقات کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
عمران/ فون