حکومت ، اپوزیشن میں کشیدہ تعلقات کار : شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں موجودگی
جب سے پندرہویں ترمیم قومی اسمبلی کا کا قیام عمل میں آیا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی کوششوں کے باوجود ’’تعلقات کار‘‘ قائم نہیں ہو سکے۔ حکومت نے قومی اسمبلی سے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز منظور کرا لی ہے لیکن تاحال کمیٹی کے ارکان کے نام کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے، پارلیمانی کمیٹی میں صرف قومی اسمبلی کے ارکان کو نمائندگی دینے کی تحریک منظور کی گئی ہے لیکن ایوان بالا کے ارکان کو نظرانداز کئے جانے پر ان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اب حکومت قومی اسمبلی کے دو تہائی ارکان اور سینٹ کے ایک تہائی ارکان کو نمائندگی دی جائے گی۔ کمیٹی کے ارکان کی تعداد 24 کر دی گئی ہے تاہم ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہوا کہ پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین حکومت سے ہو گا یا اپوزیشن سے۔ سردست حکومت اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین وزیراعظم عمران خان خود نامزد کریں گے، اسی طرح پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کا معاملہ بھی طے نہیں ہو سکا۔ حزب اختلاف نے میاں شہباز شریف کو چیئرمین بنانے کا عندیہ دیا تو انہوں نے یہ کہہ کر پبلک کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن لیڈر کا استحقاق ہے لہٰدا وہ جس کو اپوزیشن میں سے جس کو چاہیں چیئرمین شپ دے سکتے ہیں لیکن سپیکر کے اصرار کے بعد شہباز شریف نے خود چیئرمین شپ قبول کرنے کے بارے میں آمادگی کا اظہر کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چودھری کے ٹوئٹ کئے گئے ایک بیان پر سیخ پا تھی، اس نے ایوان میں فواد حسین چودھری کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی جس کے جواب میں فواد چودھری اپوزیشن پر برس پڑے اور کہا کہ گزشتہ برسوں میں اداروں کو تباہ اور خزانہ لوٹا گیا۔ سٹیل ملز، ریڈیو پاکستان اور پی آئی اے سمیت ادارے تباہ کئے گئے، سید خورشید شاہ نے 800 افراد کو تین دن میں ریڈیو میں بھرتی کیا، خزانے کو ان لوگوں نے اس طرح برباد کیا ہے جس طرح ڈاکے کے پیسے مجرے پر لٹائے جاتے ہیں، وزیراعظم میری بات مانیں تو ان کو اسی طرح الٹکا لٹکا دیں جس طرح سعودی عرب میں صبح و شام سعودی شہزادوں کو الٹا لٹکا کر کرپشن کی دولت واپس لی گئی ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر کی بار بار تنبیہ کو نظرانداز کرتے کہا کہ ’’ڈاکوئوں کو ڈاکو نہ کہیں تو اور کیا کہیں، نیویارک میں ٹیکسی چلانے والے کو ڈی جی ریڈیو بنا دیا، قانون پر عملدرآمد ہوتا تو یہ سب جیلوں میں ہوتے‘‘۔ فواد چودھری کے غیر پارلیمانی الفاظ پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور ’’لوٹا،ببلو‘‘ کے نعرے لگائے۔ سید خورشید شاہ نے کہا ایک ذمہ دار وزیر نے گھٹیا زبان استعمال کی، میں یہ نہیں کہتا کہ کہنے والا گھٹیا ہے بلکہ ان کے کے گئے الفاظ گھٹیا ہیں۔