احتساب کے نعرے کا نتیجہ نہیں نکلا‘ نیب بتائے کونسال کیس منطقی انجام تک پہنچایا : چیف جسٹس‘ چیئرمین کی طلبی ‘ ایل این جی معاہدوں سے متعلق رپورٹ پیش کرنیکا حکم
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایل این جی معاہدوں کے بارے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عوام ان معاہدوں کی شفافیت کے بارے جاننا چاہتے ہیں۔ جمعہ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر بندیال اوراعجازلاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے بارے مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرکے انہیں ایل این جی معاہدوں کی حقیقت سامنے لانے اور گزشتہ دور حکومت کے دوران پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او)میں بھاری تنخواہوں پر تقرریوں کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جائزہ لے کر بتایا جائے کہ کیاپی ایس او میںبھاری تنخواہوں پر تقرریاں قواعد کے مطابق تھیں ؟یا یہ تقرریاں اقربا پروری اور فیورٹ ازم کی بنیاد پر کی گئیں۔ چیف جسٹس نے وفاقی وزیر پٹرولیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احتساب کا نعرہ حکومت کا بھی ہے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں،جن لوگوں نے محکموں کو لوٹا ان کا احتساب ہونا چاہئے۔چیف جسٹس نے کہا اقربا پروری اور فیورٹ ازم پر لوگ آئے اور ریٹائر ہوکر آرام سے چلے گئے،حقائق عوام کے سامنے آنے چاہیے ،عدالت حکومت کی مدد کے لئے بیٹھی ہے۔عدالت نے نیب کو پی ایس او کے بارے جاری تمام انکوائریوں کی تفصیلی رپورٹ پیش کرنےکا حکم بھی دیا جبکہ دوران سماعت عدالت نے نیب کی کارردگی کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے چیئر مین نیب کو بھی چیمبر میں طلب کیا اورابزرویشن دی کہ کب تک عدالت نیب کے گند کو صاف کرے گی ۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اکبر تارڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نیب جان بوجھ کر ریفرنسز میں خامیاں چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ بری ہوجاتے ہیں اور الزام عدالتوں پر آجاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا نیب لوگوں کو اس طرح بے عزت نہ کرے اگر کسی کے خلاف ریفرنس نہیں بنتا تو انھیں بری کردیا جائے۔وفاقی وزیر غلام سرور خان نے پیش ہوکر بتایا کہ عدالت سے مدد بھی لی جائے گی اور عدالت کے احکامات پر عمل درآمد بھی ہوگا،ایل این جی کے معاملے میں نیب انکوائری کررہا ہےءلیکن بادی ا لنظر میں معاہدے شفاف نہیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت دس اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے اگلی تاریخ پر ٹھوس نتائج پیش کرنے کی ہدایت کی۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا پی ایس او کے سربراہ کہاہیں جو 37 لاکھ روپے ماہانہ لیتے تھے، ایم ڈی صاحب پیسہ کھا کر جا چکے ہیں،پی ایس او کی انتظامیہ نے ادارہ برباد کر دیاہے۔پی ایس او کے وکیل نے دفاع میں کچھ کہنا چاہا تو چیف جسٹس نے کہا وکیل صاحب ایسی انتظامیہ کا دفاع نہ کریں جو غلط کام کرتی رہی،کیا وکلا غلط کام کو درست کہنے آتے ہیں پی ایس او تو کہتا ہے کوئی اقرباپروری نہیں،کیا پی ایس او میں سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ کیا فرشتوں اور پی ایس او انتظامیہ میں کوئی فرق نہیں،کیا جو کچھ ملک کیساتھ ہو رہا ہے وہ بالکل درست ہے ؟وزارت پٹرولیم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ایم ڈی پٹرولیم اپنی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو چکا ہے ۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے کس انداز میں پی ایس او کے ایم ڈی کی تقرری کی؟حکومت اپنا گھر درست کرلیں اور وزیر پٹرولیم پی ایس او میں بھاری تنخواہوں کی وضاحت کریں، کیا پی ایس او کے سربراہ کو 37 لاکھ تنخواہ دینا جائز ہے۔نیب کار کردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا نیب سوائے آنے جانے کے کر ہی کیا رہا ہے؟نیب حکام کوئی ایک کیس بتائےں جو منطقی انجام تک پہنچایا ہو، چیئرمین نیب چیمبر میں آ کر کارکردگی پر بریفنگ دیں ،فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری سے کیا نتیجہ نکلا؟ ۔چیف جسٹس نے کہا قوم کو علم ہونا چاہئے خلاف ضابطہ تقرری کرنے والوں کیساتھ کیا ہوا؟ملک کو نیب سے نتائج درکار ہیں،نیب کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ہو گا نیب سے صرف تحقیقات کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کی خبر آتی ہیں نیب اب سستی ختم کرے اور نتائج دے، نیب کو عدالت نے بہت سپورٹ کیا، کیا نیب کا گند اب عدالت نے صاف کرنا ہے؟گند کو تحفظ دینے کی بجائے عدالت کے ساتھ چلیں۔ چیف جسٹس کے استفسار پر عدالت کو بتایا گیا کہ ڈیلر کا کمیشن تین روپے پنتالیس پیسے فی لیٹر ہے، ڈیلرز کے کمیشن کا تعین پی ایس او نہیں حکومت کرتی ہے، پٹرول پر 27 فیصد ٹیکس ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں بدنیتی ظاہر ہو رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سب سے پہلے اوگرا قیمتوں کا تعین کرتا ہے ،اوگرا قیمتوں کی سمری وزارت پٹرولیم کو بھجواتا ہے، قیمتوں میں ردوبدل کی منظوری کابینہ دیتی ہے۔ عدالت نے وفاقی وزیر پیٹرولیم کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو وفاقی وزیر غلام سرور خان عدالت میں پیش ہوگئے ۔چیف جسٹس کا ان سے کہنا تھا کہ حکومت اور عدلیہ دونوں نے ہی احتساب کا نعرہ لگایالیکن احتساب کے نعرے کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا، آج تک احتساب کے حوالے سے کوئی نتائج نہیں دے سکا،عدالت معاملہ نیب کو بھجواتی ہے جو تفتیش میں بہت وقت لیتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا نیب کی تفتیش میں اتنا زیادہ وقت لگنا چاہیے؟ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنا عدالت کا کام نہیں، مہنگائی کا جواب حکومت نے عوام کو دینا ہے، عدالت نے اختیارات کے ناجائز استعمال کا جائزہ لینا ہے، بتایاجائے کہ سابق ایم ڈی کو کس نے اور کیسے تعینات کیا تھا؟ پی ایس او افسران کوئی تکنیکی کام نہیں کر رہے، پی ایس او کا پٹرول کی قیمت پر کوئی کنٹرول ہی نہیں، سارا کام مارکیٹ فورسز کا ہے تو افسران کو بھاری تنخواہ کیوں ملتی ہے؟ پی ایس او میں غیر ترقیاتی اخراجات بہت زیادہ ہیں، سابق ایم ڈی پی ایس او کس کے آدمی تھے؟ ۔چیف جسٹس نے کہا پی ایس او میں بہت بندر بانٹ ہوئی ،لازمی نہیں کہ سب کیخلاف نیب ریفرنس ہی دائر کیا جائے،جس کیخلاف ریفرنس نہیں بنتا نہ دائر کیا جائے، میرے لیے مغفرت سے بڑھ کر اب کوئی عہدہ یا کام نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے نیب حکام سے کہاکہ پی ایس او کے معاملے کو جنگی بنیادوں پر دیکھیں،ایل این جی کے حوالے سے بھی رپورٹ دیں ۔اس دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ تقرریوں کے حوالے سے بھی رپورٹ دو سے تین ہفتوں میں پیش کرینگے ، چیف جسٹس نے خبردار کیاکہ کسی ریفرنس میں سقم نظر آیا تو تفتیشی افسر کو نہیں چھوڑیں گے،ریفرنس دائر کرنے سے نیب کا تشخص بہتر نہیں ہو جانا، ریفرنس نہیں بنتا تو لوگوں کو رہا کردیں۔، چیف جسٹس نے کہاکہ تمام حقائق عدالت کے سامنے آنے چاہیں، حکومت کو بتا دیں عدالت اسے سپورٹ کرے گی، اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں کو باہر نکالیں گے۔ غلام سرور خان نے کہاکہ عدالت کی ہدایات کو مدنظر رکھیں گے،ہماری زندگی کا مقصد بھی عوام کو ریلیف دینا ہے۔چیف جسٹس نے وفاقی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ سرور خان صاحب اب ملک کو کچھ لوٹانے کا وقت آ چکا ہے،اس سے بڑا عہدہ مجھے کوئی نہیں مل سکتا ، اختیارات کے غلط استعمال کے کلچر کو ختم کریں، ملک کی خوشحالی ہم سب کی ذمہ داری ہے،۔غلام سرور صاحب آپ نے اپنے کسی رشتہ کو نوازنا نہیں ۔اس پر غلام سرور خان نے کہاکہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے ۔سپیشل پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ سابق ایم ڈی کی تقرری میں اقربا پروری دکھائی دیتی ہے اس ضمن میں عدالت کو 2 ہفتوں میں رپورٹ دیں گے۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے قومی ائیر لائن پی آئی اے کے پائلٹس اور دیگر عملے کی ڈگریوں کی تصدیق نہ کرنے والے 19 تعلیمی بورڈز اور جامعات کے سربراہان کو طلب کرتے ہوئے عدالتوں سے حکم امتناع لینے والے عملے کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پائلٹس اور کیبن کریو کی جعلی ڈگریوں سے متعلق کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک سال سے ڈگریوں کی تصدیق کا عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ چیف جسٹس نے ڈگریوں کی تصدیق نہ کرنے والے 19 تعلیمی بورڈز، جامعات کے سربراہان اور عدالتوں سے حکم امتناع لینے والے عملے کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے کہاکہ تمام مقدمات سپریم کورٹ میں خود سنیں گے۔ ان کا کہنا تھا اساتذہ کا بے پناہ احترام کرتے ہیں، لیکن اساتذہ عدالتی حکم پر عمل نہ کریں تو معاف نہیں کرینگے۔ دو تین کو جیل بھجوایا تو سب سیدھے ہو جائیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت یکم اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔
چیف جسٹس