افراط زر میں اضافہ مالی خطرات ہیں : سٹیٹ بینک‘ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سوا چارہ نہیں
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) سٹیٹ بنک نے کہا ہے کہ آئندہ 6 ماہ میں افراط زر میں اضافہ اور اشیاءکی مارکیٹ میں عدم استحکام سمیت کئی عوامل مالی استحکام کے لئے خطرہ ہیں۔ سٹیٹ بینک کی ششماہی کارکردگی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ایس بی پی کے سسٹامیٹک رسک سروے کے دوسرے مرحلے میں یہ تجویز دی گئی کہ بیرونی شعبوں کا دباو¿، مالیاتی شعبے کے خطرات، افراط زر میں اضافہ اور اشیاء کی مارکیٹوں کا غیر مستحکم ہونا آنے والے 6 ماہ میں مالیاتی استحکام کے لیے ممکنہ خطرات ہیں‘۔ سرمایہ کاری اور اثاثہ جات کے معیار کو بہتر بنانے کی بنیاد پر سال 2018ءکی پہلی ششماہی میں مجموعی طور پر بینکنگ کے شعبے میں موجود خطرات میں بہتری آئی، سرمائے کی شرح 15.9 فیصد تک پہنچی جبکہ غیر فعال قرضوں کی شرح کم ہو کر 7.9 فیصد تک رہی جو 2008 کی پہلی ششماہی کے بعد سب سے کم ہے۔ سکیورٹیز کی فروخت میں کمی، انتظامی اخراجات میں اضافے کی وجہ سے بینکوں کی بعد از ٹیکس آمدنی میں 14.7 فیصد کمی آئی جبکہ گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں شعبے کے اثاثے نصف سال کے دوران 4.7 فیصد تک معتدل رہے۔ ایڈوانسز میں بھاری اضافہ جبکہ ڈیپازٹ نمو میں کمی دیکھی گئی اور ایڈوانسز سے ڈیپازٹ کی شرح سال 2018 کی پہلی ششماہی میں 53.1 فیصد رہی جو گزشتہ سال کی پہلی ششماہی میں 48.7 فیصد تھی۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ اثاثوں کی نمو میں نجی شعبے کے قرضوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، جن میں چینی، توانائی اور سیمنٹ کے شعبوں کے ساتھ منسلک افراد کو اہم قرض گیروں کی حیثیت حاصل رہی۔ رپورٹ کے مطابق سال 2018ءکی پہلی ششماہی میں بینکوں کے غیر ملکی کرنسی کے ’محفوظ قرضوں‘ میں یہ 307.9 فیصد(51 ارب 30 کروڑ روپے) جبکہ ’غیر محفوظ قرضوں‘ میں 25.9 فیصد (ایک کھرب 37 ارب روپے) اضافہ دیکھا گیا۔ بینکنگ شعبے میں ڈیپازٹ، فنڈنگ کے لیے اہم رہا لیکن اس جائزے کے دوران اس میں کمی آئی اور یہ گزشتہ سال کے 6.6 فیصد (7سو 75 ارب 40 کروڑ روپے) کے مقابلے میں 5.7 فیصد( 744 ارب روپے) تک دیکھی گئی۔ اقوام متحدہ کی ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس کی رپورٹ جاری کر دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح میں کمی ہوئی۔ رواں سال کے آغاز سے ہی روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔ خام تیل کی قیمتوں میں اضافے سے تجارتی خسارہ بڑھا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرے، بڑھتا ہوا قرضہ مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 31 فیصد تک پہنچ گیا۔ حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سوا کوئی آپشن نہیں، حکومت کو قرضہ لینے کیلئے کفایت شعاری کو اپنانا ہو گا۔ بہتر نمو کے باوجود روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ایک چوتھائی کم ہوئی۔ بیرونی ادائیگیوں کا حجم 82 ارب ہے اور بڑھ رہا ہے، قرض گیری کی صورتحال جاری رکھنے پر خدشات ہیں۔ اندازہ ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف سے بڑا قرضہ لینا ہو گا۔ آئی ایم ایف پروگرام میں خرچے کم ہوئے تو معاشی نمو بھی کم ہو گی۔ انفراسٹرکچر منصوبوں سے برآمدات بڑھیں، مستقبل اس پر منحصر ہے۔
اقوام متحدہ رپورٹ