بشریٰ بی بی کی میٹھی میٹھی باتیں!اور باتیں
خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی نے کہا ہے کہ اللہ نے ہدایت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ یہ بھی بیان فرمائیں کہ وہ وقت کب آئے گا۔ انہوںنے عوام کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے مگر ساری بات تعریفی تھی۔ کسی انسان میں خوبیاں ہوتی ہیں تو خرابیاں بھی ہوتی ہیں؟ عمران کھانے پینے میں نخرے نہیں کرتا۔ لوگوں کو چاہئے کہ تھوڑا صبر کریں۔ تبدیلی میں تھوڑا وقت لگے گا۔ کچھ دوستوں نے کہہ دیا کہ بشریٰ بی بی عمران کے دفاع میں آ گئی ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اور لیڈر اس کام کے لئے بہت ہیں۔ بشریٰ بی بی فکر نہ کریں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ قوم کوایسا لیڈر ملا ہے جسے کوئی لالچ نہیں۔ عمران بہت سادہ انسان ہے۔ انہوں نے اپنے بارے میں کہا کہ میری شادی جلدی ہو گئی تھی۔ انہوں نے یہ بات خاور مانیکا سے شادی کے حوالے سے کہی یا عمران کے حوالے سے۔میری ساری زندگی جائے نماز پر گزری ہے۔ رب نے مجھے مہارانی کی طرح رکھا۔ خاتون اول کے لئے یہ ایک متبادل لفظ ہے۔ کپڑوں کے حوالے سے عمران بہت بے پرواہ ہے۔ اس کے پاس کل تین سوٹ ہیں۔ عمران خان کب پاکستانیوں کی تقدیر بدلیں گے۔ میں ان کی دیکھ بھال کروں گی۔ اس وقت دنیا میں دو ہی لیڈر ہیں۔ قائد اعظم کے بعد عمران خان اور طیب اردگان، میری ان سے گزارش ہے کہ بشریٰ بی بی عمران خان کو مولوی نہ بنائیں۔ انہیں سیدھا سادہ مسلمان ہی رہنے دیں۔
اب آپ تحریک انصاف کے سینئر ترین وزیر برادرم علیم خان کی باتیں سنیں۔ علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی پوری امید تھی مگر انہیں سینئر وزیر بنا دیا گیا۔ انہیں قائل کر لیا گیا کہ سینئر وزیر اصل میں وزیراعلیٰ ہی ہوتا ہے۔ علیم خان نے کہا کہ عمران خان امید کی آخری کرن ہے۔ وہ یہ بھی بتادیں کہ پہلی کرن کون ہے۔ ہم علیم خان کو ہی پہلی کرن سمجھتے ہیں۔ علیم خان نے حزب اختلاف خصوصاً خورشید شاہ کو تسلی دی ہے کہ فواد چودھری وزیراطلاعات کا رویہ ا یوان میں اچھا نہیں تھا۔ جہانگیر ترین عدالت کی نظروں میں نااہل ہیں مگر عمران خان کی نظروں میں نہیں۔ آخری جملہ میرا ہے مگر لگتا ہے کہ علیم خان کا ہے۔ سنا ہے کہ علیم خان کے مشورے پر فلاحی شخصیت ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت کی گرانٹ بند کر دی گئی ہے۔ ’’اخوت‘‘ کو قومی ادارہ کہنا بہت مناسب ہے ۔ قومیں یعنی حکومتیں ایسے اچھے کام نہیں کرتیں۔
اخوت کے زیر اہتمام اب ڈاکٹر امجد ثاقب بہت دور آباد اور پسماندہ علاقے ڈیرہ غازی خاں میں ایک یونیورسٹی بنا رہے ہیں جہاں غریب اور یتیم بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ ’’اخوت‘‘ والے اصل میں بلاسود قرضے مستحق لوگوں کے لئے فراہم کرتے ہیں اس ضمن میں بھی کوئی لمبی چوڑی تحقیقات نہیں کی جاتیں۔ ’’اخوت‘‘ والوں کی کتنی بڑی کریڈیبلٹی ہے کہ لوگ قرض واپس کر دیتے ہیں اور خود ہی قرض دینے کے قابل بن جاتے ہیں جبکہ قرضوں کا سارا سلسلہ ہمارے ان سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر سود پر چلتا ہے ۔بلاسود قرضے دینے کا رواج نہیں۔ میں برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میں نے ان سے کوئی قرضہ نہیں لیا مگر میں خود کو ان کا مقروض سمجھتا ہوں۔ یہ بات میں کئی جگہ پر کر چکا ہوں۔ یہاں سود خور انسان اور حکمران بہت ہیں مگر ڈاکٹر امجد ثاقب ایک ہی ہے۔ یہ ایک آدمی لاکھوں پر بھاری ہے۔ شہبازشریف نے ڈاکٹر امجد ثاقب سے بہت رہنمائی حاصل کی تھی۔ اب عثمان بزدار بھی کچھ کریں۔ برادرم اکرم چودھری ان سے کچھ کروائیں۔ اللہ کرے علیم خان اس کام کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنا فیصلہ واپس لیںاور اللہ کرے یہ بات غلط ہو۔ میراخیال ہے کہ علیم خان بھلے آدمی ہیں۔ یہ بات غلط ہی ہوگی۔
ایک تصویر میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار سروسز ہسپتال میں ایک مریض کی عیادت کررہے ہیں۔ کاش وہ ہسپتال کی بہتری کیلئے بھی کچھ کریں۔
مونا عالم نے پی جے میر کے پروگرام میں کہا ہے کہ زرداری اور ان کے ساتھیوں کا بار بار یہ بیان کہ میرا احتساب کرنا ایسے ہی ہے جیسے بینظیر قتل کی تحقیقات کرنا۔ بینظیر کے قتل کی تحقیقات ضرور ہونا چاہئے۔ پھر زرداری کیاکہیں گے۔ زرداری صاحب میرے نزدیک ایک بڑے سیاستدان ہیں۔ ایک سوال ان سے بڑے احترام کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ بینظیر زندہ ہوتی تو وہ صدر پاکستان بن سکتے تھے؟ پی جے میر نے بہت حساس موضوع پر بات کی ہے۔ وہ انگلستان میں بھی پروگرام کرتے تھے۔ عمران خان کی زبان کو سب نے سنا۔ میںبھی موجود تھا۔ وہ بہت زبردست سوال کرتا ہے۔
نسرین انجم بھٹی کی شاعری کیلئے غلام حسین ساجد کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں تو نسرین کو شاعرات میں سب سے جرأت مند اور کمپلیکس فری شاعرہ سمجھتا ہوں۔ وہ خاموش رہتی تھی مگر اس کی نظمیں بولتیں ہیں۔ کبھی کبھی دلوں کے دروازے کھولتی ہیں۔ وہ سچی انقلابی شاعرہ ہیں اور تخلیقی بھی۔
ایک معروف شاعر سید عارف توناروی کے فن اور شخصیت کے حوالے بہت اچھی کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ڈاکٹر شفیق جالندھری‘ ایم آر شاہد اور محمد نوید مرزا شامل ہیں جنہوں نے بڑی محنت اور محبت سے بڑے بڑے لکھنے والے ادیبوں‘ شاعروں کے پندرہ مضامین اکٹھے کرکے چھاپ دیئے ہیں۔ مشہور ادبی شخصیات کی آراء بھی جمع کر دی ہیں۔ مختلف رسالوں میں عارف صاحب کے انٹرویوز بھی شامل کئے ہیں۔ ان کے منتخب کالم اور شاعری بھی شامل اشاعت کی ہے۔ اس طرح یہ کتاب ایک جامع اور مفصل صورت اختیار کر گئی ہے۔ عارف نوناروی کیلئے ایک خوبصورت کتاب پڑھنے والوں کے سامنے آئی ہے۔ لکھنے والوں میں معروف ادیب شاعراور صحافی سعید آسی کے علاوہ سہیل وڑائچ‘ افتخار مجاز‘ ناصر بشیر اور بریگیڈیئر صولت رضا اور دوسرے لوگ شامل ہیں جس سے کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
عارف ایک منجھے ہوئے کالم نگار ہیں۔ وہ خالصتاً صحافیانہ اسلوب میں کالم لکھتے ہیں۔ دھیما دھیما مزاج بھی ان کی تحریر کو مزیدار بناتاہے۔ جاوید صدیق بھٹی کی گفتگو اچھی آرزو میں گھلی ملی ہوئی ہے۔ عارف صاحب بہت مگن والے آدمی ہیں۔ ان کی اس فطرت نے انہیں قابل ذکر لکھنے والا بنا دیا ہے۔ عارف کے کچھ اشعار دیکھیں
اس کو بھی آزما کے دیکھ لیا
اک بہانہ بنا کے دیکھ لیا
بھولنا چاہتا ہوں سب باتیں
تجھ سے رشتہ نبھا کے دیکھ لیا
عارف اب رو رہا ہوں برسوں سے
خواب میں مسکرا کے دیکھ لیا