• news

جس کے ہاتھ جو آیا لوٹ لیا‘ کیا یہ انصاف ہے : چیف جسٹس

لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے سی سی پی او آفس میں پنچائت لگا کر شہری کی اراضی پر قبضے اور اونے پونے فروخت کرنے کے معاملہ میں سابق سی سی پی او لاہور امین وینس اور سابق پولیس افسر عمر ورک کو معطل کر دیا۔ فاضل عدالت نے دونوں پولیس افسران کے خلاف انکوائری کی ہدائت کر دی۔ چیف جسٹس نے اکبری سٹورز کی چار برانچوں کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا۔ عدالتی حکم پر آئی جی سندھ کلیم امام نے انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس میں کہا گیا ہے امین وینس اور عمر ورک سمیت متعلقہ افسران نے پیشہ وارانہ بددیانتی کی۔ مرحوم شہری کی اراضی اونے پونے بکوا دی۔ خریداروں نے طے شدہ رقم ورثاءکو ادا نہیں کی۔ رپورٹ میں امین وینس اور متعلقہ افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا مرحوم کے ورثا چاہئیں تو ان پولیس افسران کے خلاف فوجداری کارروائی کے لئے متعلقہ فورم پر رجوع کر سکتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے قرار دیا اتنے سنجیدہ الزامات کے بعد ان افسروں کو ہٹایا جائے اور معاملے کی انکوائری کی جائے۔ معاملہ دو فریقین کے درمیان تھا پولیس افسران بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑے۔ دھمکا کر شہریوں کو پولیس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اربوں روپے کی اراضی کیسے انویسٹرز کے سپرد کردی۔ عدالت نے مصالحت کار بننے پر سابق جج حامد علی شاہ کو فوری عدالت طلب کر لیا۔ میاں ظفر اقبال کلانوری نے بتایا سمجھ نہیں آ رہی حامد علی شاہ کیسے اور کس قانون کے تحت مصالحت کار بن گئے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا مرحوم کے کاروبار میں حصہ داری کے دعویداروں کے ذرئع آمدن کا پتہ چلایا جائے۔ کاروبار میں حصہ داری کے دعویدار ٹیکس ادا نہیں کر رہے تو سب چور ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا جو پولیس وردی میں بندے مارتے ہیں ان کا حساب لینے کے لیے اللہ نے مجھے عہدہ دیا۔ انہوں نے مخاطب کرتے ہوئے کہا عمر ورک آپ ابھی تک میری ڈکیتی کا ملزم تو پکڑ نہیں سکے۔ مجھے معلوم ہے آپ کن وجوہات کی بنا پر اس مقام تک پہنچے۔ چیف جسٹس نے عمر ورک پر اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے کہا مالدار شخص مرا تو سارے مامے چاچے اور کزن بن کر مال کھانے کے لیے گدھ بن گئے۔ کیا یہ انصاف ہو رہا ہے اس ملک میں؟ جس کے ہاتھ جو آیا لوٹ کر کھا گیا۔ لوگ کہتے ہیں عمر ورک بندے مار دیتا ہے۔ شہر کے ہر بڑے تنازعہ میں عمر ورک کا ہی نام کیوں آتا ہے۔ عمر ورک نے فاضل عدالت کو بتایا اکبری سٹور میں سی سی پی او امین وینس کے کہنے پر مداخلت کی۔ فاضل عدالت نے سٹور کے شئیر ہولڈر سابق چیف انجنئر شوکت شاہین سمیت دیگر کے اثاثوں کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ مزید براں چیف جسٹس نے پنجاب بھر میں قائم نجی یونیورسٹیز سے متعلق از خود نوٹس لے لیا اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو تمام نجی جامعات کی تعداد اور انکے ساتھ ملحقہ کالجز کی تفصیلات مانگ لیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ایک یونیورسٹی سے ملحق کالج کے طلبا کو ڈگری نہ ملنے پر درخواست کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا نجی یونیورسٹیاں کب سے کام کر رہی ہیں اور فیس کیا لیتی ہیں۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت نجی یونیورسٹیوں کے قیام اور کالجز کے الحاق پر از خود نوٹس لیا اور باور کرایا جن یونیورسٹیوں نے خلاف قانون کیمپس کھولا یا الحاق کیا، انکے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے جائیں گے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بتایا ایک یونیورسٹی نے بغیر اجازت کالجز کے ساتھ الحاق کیا۔ صرف ڈگری کا نہیں ادارے میں اساتذہ کا ہونا بھی ضروری ہے ورنہ ڈگری کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور خبردار کیا دیکھتا ہوں کون انکی ضمانت لیتا ہے۔لوگوں کے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں۔ تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو حکم دیا پنجاب بھر میں نجی یونیورسٹیوں کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا ایف آئی اے یونیوسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے متعلق رپورٹ دے۔ چیف جسٹس نے قرار دیا بعض یونیورسٹیاں کس حیثیت سے میڈیکل کی تعلیم دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت آرام فرما رہی ہیں، طالبعلم ڈگریاں لینے کے لئے سڑکوں پر ہیں۔ فاضل عدالت نے عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ اور میاں ظفر اقبال کلانوری ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔ چیف جسٹس نے عدالتی معاونین کو جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ نیب نے چیف جسٹس آف پاکستان کو آگاہ کیا 56 کمپنیوں میں استحقاق سے زیادہ تنخواہیں لینے والے افسروں نے 313 ملین (31 کروڑ 30 لاکھ) روپے سے زائد رقم واپس کر دی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے 56 کمپنیوں میں استحقاق سے زیادہ تنخواہ لینے والے افسروں کیخلاف از خود پر سماعت کی۔ ڈی جی نیب لاہور کی رپورٹ کے مطابق 56 کمپنیوں میں کام کرنیوالے افسروں کے ذمے استحقاق سے زیادہ تنخواہ کی مد میں 432 ملین تھے جن میں سے 313 ملین روپے واپس ہو چکے ہیں۔ ڈی جی نیب نے بتایا 9 افسران کے ذمہ 118 ملین (11 کروڑ 80 لاکھ روپے) باقی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی نیب کی رپورٹ پر نو افسروں کو جواب دینے کی ہدایت کی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے اخوت فاو¿نڈیشن کے خلاف ممکنہ حکومتی کارروائی کے معاملہ پر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال عدالت میں پیش ہوئے۔ فاضل عدالت نے استفسار کیا آپ لوگ اخوت فاو¿نڈیشن کے خلاف کیا کارروائی کر رہے ہیں۔ میاں اسلم اقبال نے فاضل عدالت کو بتایا ہم اخوت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔ حکومت اخوت فاو¿نڈیشن کو رقم دیتی ہے۔ یہ ادارہ نان پرافٹ ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا حکومت کس طرح ایک پرائیویٹ ادارے کو رقم جاری کر سکتی ہے۔ کتنی رقم دی گئی اور کن شرائط پر دی گئی۔ فاضل چیف جسٹس نے میاں اسلم اقبال کو آج تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے عطائی جراح کی وجہ سے بچی کے بازو کے کاٹے جانے پرعطائی کو دویوم میں گرفتار کرنے کاحکم دے دیا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مبینہ طور پر بچی کے بازو کے غلط علاج سے کاٹے جانے کے معاملے پر سماعت کی۔ سیکرٹری ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن ڈاکٹر سلمان کاظمی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بچی کے گرنے سے بازو ٹوٹا عطائی جراح نے غلط علاج کیا ڈاکٹر سلمان کاظمی نے بتایا عطائی کے غلط علاج کے باعث ڈاکٹروں کوبچی کا بازوکاٹنا پڑا جبکہ پولیس عطائی کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر رہی ہیلتھ کئیر کمشن کے سربراہ نے عدالت کو بتایا عطائی کا کلینک سیل کر دیا گیا ہے۔ سربراہ ہیلتھ کئیر کمیشن نے بتایا پولیس نے عطائی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے مگر ملزم فرار ہو چکا ہے عدالت نے عطائی ڈاکٹر کو دو روز میں گرفتار کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کے روبرو پنجاب یونیورسٹی لاءکالج کی پرنسپل شازیہ قریشی کے تحقیقی مکالے پر بنائی گئی کمیٹی نے رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ کمیٹی نے شازیہ قریشی کا معاملہ ہائر ایجوکیشن کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بھجوانے کی سفارش کر دی۔ چیف جسٹس نے کمیٹی کی رپورٹ کے بعد درخواست نمٹا دی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کمیٹی کی رپورٹ شازیہ قریشی چاہیں تو چیلنج کر سکتی ہیں۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے۔شازیہ قریشی کے مکالے پر بنائی گئی کمیٹی کے ارکان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔آن لائن کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور کے مختلف ہسپتالوں کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹرز ہسپتال کی ایمرجنسی، وارڈز، لیبارٹری اور کینٹین کا معائنہ کیا تو مریضوں نے شکایات کے انبار لگا دئیے۔ ایک مریض نے بتایا بیسمنٹ میں جانے کے لئے لفٹ نہیں۔ کینٹین پر چیزیں مہنگی بکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنی جیب سے پیسے ادا کر کے پانی کی بوتل خریدی اور معائنے کے لئے اپنے عملے کے حوالے کر دی۔ چیف جسٹس نے کینٹین سے ریٹ لسٹ اتروا کر عملے کے حوالے کر دی۔ چیف جسٹس نے مہنگے علاج پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہاں پر آنے والے مریض لینڈلارڈ نہیں، یہاں پر مریضوں کے کپڑے بھی اتروا لئے جاتے ہیں۔ علاج معالجے کے نرخ نامے فراہم نہ کرنے پر بھی چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ خاتون کی شکائت پر چیف جسٹس نے ایم ایس کو خاتون کا علاج سو فیصد مفت کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ایم ایس سے استفسارکیا قانون کے تحت مفت علاج کیوں نہیں کیا جا رہا۔ دریں اثناءچیف جسٹس آف پاکستان نے حمید لطیف ہسپتال کا بھی اچانک دورہ کیا اور ہسپتال میں علاج اور دیگر معاملات پر انتظامیہ کی سرزنش کر دی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ مریضوں کی فراہم کی جانے والی سہولیات کے بارے میں سن کر دکھ ہوا، سادہ پانی کی بوتل پندرہ روپے کی بجائے پچاس روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ دس روپے والا چائے کا کپ پچاس روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ انجیوگرافی کی فیس اڑھائی لاکھ روپے وصول کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حالات دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ ہسپتال میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ چیف جسٹس نے ہسپتال انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے شیخ زید ہسپتال کا بھی دورہ کیا۔ جسٹس اعجازالاحسن بھی چیف جسٹس کے ہمراہ تھے۔ چیف جسٹس نے انتہائی نگہداشت یونٹ کا بھی معائنہ کیا۔ چیف جسٹس نے مریضوں سے ان کے مسائل دریافت کئے۔ مریضوں کے اہل خانہ نے شکایات کے انبار لگا دئیے۔ چیف جسٹس نے ایمرجنسی کا بھی دورہ کیا۔ سینئر قانون دان میاں ظفر اقبال کلانوری اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل امتیاز کیفی بھی ہمراہ تھے۔ چیف جسٹس نے کہا ہسپتال کے معاملات میں بہتری دکھائی دی۔ توقع ہے آنے والے دنوں میں مزید بہتری آئے گی۔ چیف جسٹس نے مریضوں کے مسائل سن کر ایم ایس کو احکامات صادر کئے۔

چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن