ملتان میٹرو بس سکینڈل : زیر حراست افسران کے ایک دوسرے پر الزامات
ملتان (ملک اعظم سے) ملتان میٹرو بس پروجیکٹ میں مبینہ کرپشن کے الزام میں زیر حراست افسروں نے ایک دوسرے پر الزمات کی بوچھاڑ کر دی۔ شعبہ انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والے تمام افسران کروڑوں روپے کی غیر قانونی ادائیگیوں کا ذمہ دار ٹیکنیکل ایڈوائزر صابر خان سدوزئی کو قرار دے رہے ہیں جبکہ ٹیکنیکل ایڈوائزر و سابق چیف انجینئر ایم ڈی اے کمپنیوں کی پری کوالیفکیشن میں غیر قانونی اقدامات کو اعلیٰ افسران اور شخصیات کو قرار دے رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے نیب کی چارج شیٹ میں کمپنیوں کی پری کوالیفکیشن کا نقطہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پری کوالیفکیشن سب کمپنیوں کو نوازنے کے لئے پول کر لیا گیا تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ترقیاتی پروجیکٹ میں این ایچ اے نے امام بارگاہ کی اراضی ایکوائر کی اور اراضی کی قیمت‘ عمارت کی قیمت بھی ادا کر دی۔ اس کے بدلے میں اس کی انتظامیہ نے امام بارگاہ کے لئے واسا کا پلاٹ بھی امام بارگاہ کے حوالے کر دیا لیکن امام بارگاہ قائم رہی۔ جب ملتان میٹرو بس پروجیکٹ کے لئے لینڈ ایکوزیشن کی گئی تو امام بارگاہ کی انتظامیہ نے سرکاری اراضی کا قبضہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ لینڈ ایکوزیشن کلکٹر نے انتظامیہ کو 60 لاکھ روپے سے زائد رقم ادا کر دی اور سرکاری اراضی کا قبضہ واگزار کرا لیا۔ اسی طرح کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کی تعمیر کے لئے متاثرین کو 8 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی ظاہر کی گئی۔ بعدازاں انہیں 1 کروڑ روپے سے زائد رقم کا چیک دیکر ٹرخا دیا گیا۔ اسی طرح لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر غلام مصطفی گجر نے متاثرین کو 10 فٹ سے زائد ایریا کی غیر قانونی طور پر کمرشل ادائیگی کی سابق ڈی سی ملتان زاہد سلم گوندل نے اس ادائیگی پر اعتراض کیا اور ایل اے سی کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں سابق کمشنر ملتان ڈویژن کیپٹن (ر) اسد اللہ خان نے اصل سمری نہ ہونے کی بنا پر فوٹو کاپی پر دستخط کر کے ایل اے سی کو 10 فٹ تک کمرشل ادائیگی کرنے کی اجازت دے دی۔
ملتان میٹرو سکینڈل