ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی آفس کی مداخلت پر ہوا : انکوائری رپورٹ‘ آرٹیکل 62 ون ایف تعویز بنا کر پہن لیں : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے خلاف لئے گئے ازخود نوٹس کیس میں انکوائری افسر ڈی جی نیکٹا مہر خالق داد لک کی رپورٹ پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب سید کلیم امام اور احسن جمیل گجر، خاور مانیکا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو تین دن میں اپنا تحریری موقف پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ جبکہ کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس میا ں ثاقب نثارنے ریمارکس د یتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو کہیں کہ وہ رپورٹ پر اپنا جواب دیں، انہیں یہ بھی کہیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو بار بار پڑھیں اور اسے تعویذ کے طور پر باندھ لیں، ہر آدمی کو معافی نہیں مل سکتی کل بھی دو کو معافی دی ہے ، کیا ہم معافی دیتے رہیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت کی تو عدالت میں نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)کے کوآرڈینیٹر مہر خالق داد لک نے 25 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جبکہ اس سے قبل عدالت نے سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی انکوائری رپورٹ مسترد کرتے ہوئے نیکٹا کے نیشنل کوآرڈینیٹر خالق داد لک کو معاملے کی ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دوست احسن جمیل گجرکو ذمہ دار قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ احسن جمیل گجر نے وزیراعلیٰ کے سامنے بظاہر پولیس افسران سے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا اور اس پر فوجداری مقدمہ بنتا ہے یا نہیں، یہ قانونی سوال ہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ ایشو وزیراعلیٰ کے کنڈکٹ کا تھا، ڈی پی او کو پیغام دینا تضحیک آمیز تھا اور یہ کہنا بھی تضحیک آمیز تھا کہ سب کا نقصان ہو گا، ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلیٰ کے دفتر کی مداخلت پر ہوا۔ رپو رٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے کے لیے وزیراعلیٰ ہاوس سے کرادر ادا کیا گیا اور یہ تبادلہ انتہائی عجلت میں کیا، ڈی پی او کی تبدیلی میں سابق آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے صرف ربڑ اسٹیمپ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا،رپورٹ میں کہا گیا کہ احسن جمیل گجر کایہ کہنا کہ آئندہ ایسا ہونے پر سب کے لیے مسائل پیدا ہوں گے بادی النظر میں مبہم دھمکی ہے،آئی جی کو انکوائری اور تبادلے کے احکامات ایک ساتھ جاری کرنے چاہیے تھے۔ تحقیقاتی رپورٹ آنے سے قبل ڈی پی او کا تبادلہ شکوک و شہبات پیدا کرتا ہے،ٹیلی فونک ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کا بیان درست ہے، وزیراعلیٰ نے 28 تاریخ کو غیر مناسب وقت پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا، احسن جمیل گجر بچوں کے خود ساختہ گارڈین بنے، انکوائری افسر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل کے تبادلے کے بعد چارج چھوڑنے سے متعلق بھی وزیراعلیٰ ہاﺅس سے رات 11بجے فون کیا گیا، وزیراعلیٰ کے پی ایس او نے دیگر افسران سے بھی رابطے کیے۔انکوائری افسر خالق داد لک نے مزید کہا کہ شواہد رضوان گوندل کے موقف کو درست قرار دے رہے ہیں، آر پی او ساہیوال نے انکوائری تک تبادلہ نہ کرنے کا کہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاﺅس میں ملاقات کے بعد رضوان گوندل کا تبادلہ ہوا ان حالات میں عدالت کیا نتیجہ اخذ کرے جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پولیس کے کام میں مداخلت کے شواہد نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ صوبے کا سربراہ ہے، وزیراعلیٰ کے اقدام پر اعتراض نہیں لیکن اعتراض یہ ہے کہ ڈی پی او اور آر پی او کے ساتھ اجنبی شخص نے گفتگو کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تناظر میں بھی دیکھیں گے، یہ بات تعویز کی طرح باندھ لیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف ہے کیا؟ پہلے معافیاں مانگتے تھے اور ہم معافیاں دیتے رہے لیکن اس بار معافی نہیں ملے گی، بظاہر لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ ہاوس سے فون گیا اور اب احسن جمیل گجر جھک کر کھڑے ہیں پہلے ان کی ٹون ہی الگ تھی،اب معافی مانگ رہے ہیں، کیوں نہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کا تبادلہ غیرمعمولی وقت پر ہوا۔ ڈی جی نیکٹا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا نہ صرف وزیراعلیٰ کے دباو پر کیا گیا بلکہ ان کے عملے نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ تبادلہ کے احکامات پر من و عن عمل ہوا ہے یا نہیں۔خاور مانیکا روسٹرم پر آئے تو رو پڑے اور کہا کہ پولیس نے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ زیادتی کی ہے اور جو میرے ساتھ زیا دتی ہوئی ہے کیا میں اس معاملے پر سابق بیوی یا عمران خان سے بات کرتا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے خاور مانیکا کو کہا کہ کیا آپ کو احسن جمیل معتبر نظر آئے، یہاں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، آپ درمیان سے نکل جائیں، ہم نے اپنی انکوائری کرالی ہے،مجھے مجبور نا کریں کہ آپ کے ساتھ سختی سے پیش آ¶ں۔ اس پر خاور مانیکا نے کہا کہ احسن اقبال جمیل ان کے فیملی فرینڈ ہیں اور انہوں نے خاندان کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے محض اس بنیاد پر اپنا کردار ادا کیا۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ کو رپورٹ پر اگر تحفظات ہیں تو تحریری جواب جمع کروا دیں ، عدالت نے حکم دیا کہ انکوائری رپورٹ کی کاپی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کو دی جائے ۔
ثاقب نثار