پنجاب اسمبلی سپیکر کے عہدے کو زیر بحث لانے پر حکومتی اپوزیشن ارکان میں تلخ کلامی
لاہور (خصوصی رپورٹر/ خصوصی نامہ نگار) سپیکر پنجاب اسمبلی کے عہدے کو زیر بحث لانے کے معاملے پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، سپیکر نے اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری کا مائیک بند کرا دیا، سپیکر کی جانب سے احتجاج کو ڈانس کہنے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا کہ ایوان کی کارروائی کو شائستگی سے چلنا چاہیے، ماحول سازگار ہوگا تو یہ ہم سب کی جیت ہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت گیارہ بجے کی بجائے ایک گھنٹہ پانچ منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر ہی اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے انتخابات پر تحفظات ہیں لیکن سپیکر کی کرسی کی عزت اور احترام ہے جوملحوظ خاطر رہنا چاہیے رکھا۔ آپ اس ایوان کے کسٹوڈین ہیں اور اس کی روایات سے بھی آگاہ ہیں۔ سپیکر کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن آپ میڈیا میں جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں یہ اس عہدے کے شایان شان نہیں ہیں جس پر سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کیا بات کر رہی ہیں۔ سپیکر نے تمام الفاظ کارروائی سے حذف کراتے ہوئے عظمیٰ بخاری کا مائیک بند کرا دیا تاہم وہ اس کے باوجود بولتی رہیں۔ وزیر قانون راجہ بشارت نے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں وہ تمام امور جن پر اختلاف رائے ہے انہیں طے کیا گیا۔ رانا محمد اقبال نے قرارداد کی بات کی جس پر سپیکر نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی اجازت دیدی۔ بیگم کلثوم نواز ہمار ے لئے بھی قابل احترام ہیں یہ قرارداد متفقہ بھی آسکتی تھی۔ سپیکر اسمبلی کے کنڈکٹ کو زیر بحث لانے کی کوشش مناسب نہیں۔ سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ اگر انہوں نے یہی کرنا ہے اور یہی طریقہ اپنانا ہے تو پھر سوچنا پڑے گا۔ اجلاس کے آغاز سے قبل اپوزیشن سے جو مذاکرات ہوئے وہ کہاں گئے۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اجلاس بلایا گیا اور ایجنڈا رکھا گیا۔ اس طرح نہیں چلنے دیں گے جس پر عظمیٰ بخاری نے اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے بلند آواز میں کہا کہ ہم بھی نہیں چلنے دیں گے جس پر سپیکر نے کہا کہ آپ نے اجلاس کےلئے ریکوزیشن کی ہے نہ چلائیں، یہ آپ کی ذمہ داری ہے ہماری ذمہ داری نہیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ سپیکر آپ کا رتبہ، آپ کی سیاسی تاریخ اور طرز سیاست ہے، جن لوگوں کو سیاست میں دس دن ہوئے ہیں ان کے دو چار جملوں سے آپ کی حیثیت اور وقار کم نہیں ہو سکتا۔ کسی کو ووٹ کی تذلیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جنہوں نے اربوں، کھربوں لگا کر ووٹ کو عزت دو کے ڈرامے رچائے وہ ہمارے ووٹ کی ذلت نہیں کر سکتے اور نہ ہم کسی کو اس کی اجازت دیں گے۔ چوہدری ظہیر الدین نے کہا کہ میں قائد حزب اختلاف کے جذبے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ سمیع اللہ خان ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر ہیں اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے شوہر ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں کیا کمٹمنٹ کر کے آئے ہیں۔ سمیع اللہ خان نے کہا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں جو طے ہوا ہے اس پر دونوں طرف سے عمل ہونا ہے۔ سپیکر صاحب آپ کسی کو نقطہ اعتراض پر بات کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آپ برداشت ہی نہیں کر رہے جس پر سپیکر نے کہا کہ ادھر تو ڈانس کو بھی برداشت کیا ہے جس پر اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا۔ چوہدری سمیع اللہ خان نے کہا کہ آپ پی ٹی آئی سے اس طرح بدلا نہ لیں۔ ہم تو اسے بڑی جماعت سمجھتے تھے آپ اسے ڈانس پارٹی کہہ رہے ہیں۔ محمود الرشید نے کہا کہ ابھی قائد حزب اختلاف نے بات کی ہے اور اپوزیشن ارکان ان کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ اپوزیشن ارکان تھوڑی سی تمیز سیکھ لیں، قائد حزب اختلاف ان کے لئے خصوصی ورکشاپ رکھیں جس میں انہیں تمیز سکھائیں کہ سپیکر اسمبلی کو کیسے مخاطب کرنا ہے۔ اپوزیشن کے سینئر رکن اسمبلی ملک ندیم کامران نے کہا کہ سپیکر مناسب الفاظ استعمال کر سکتے تھے ۔ قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کہا کہ میںنے نہایت سچے جذبے سے اظہار خیال کیا تھا۔ میں بیحد احترام سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سب گھر والے ہیں میں اور آپ گھریلو روایات کے امین ہیں یہاں دونوں طرف خواتین بیٹھی ہیں اور ہمار ے لئے قابل احترام ہیں لیکن آپ نے جو الفاظ استعمال کئے ہیںوہ مناسب نہیں تھے۔ ایوان کو چلانا ہے تو آپ بھی الفاظ کے چناﺅ میں احتیاط کریں گے اور ہم بھی تعاون کریں گے۔ وقفہ سوالات کے دوران بھی وزراءاور اپوزیشن ارکان میں نوک جھونک ہوتی رہی۔ صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے کہا کہ سابقہ حکومت نے انڈسٹری کا خانہ خراب کیا ہے۔ انہوں نے میاں نصیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پندرہ سال حکومت کی اور مجھے تو دس روز ہوئے ہیں اپنی حکومت کی بات کریں پوچھیں اس صوبے کے ساتھ کیا کیا ہے؟ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایوان کو بتایا کہ ضمنی انتخابات کی وجہ سے فی الوقت ہر طرح کی بھرتیوں پر پابندی عائد ہے۔ صوبے میں اس وقت پچاس فیصد آسامیاں خالی ہیں ضمنی انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی 30اکتوبر تک ڈاکٹروں اور نرسز کی آسامیوں پر بھرتی کے حوالے سے بہت سا کام مکمل کر لیا جائے گا جبکہ گریڈ 16سے نیچے بھرتیوں کا عمل دو ڈھائی ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ ٹی ایچ کیو اور ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں سینئرز ڈاکٹرز موجود ہیں لیکن اس کے باوجود جونیئرز سے کام کرایا جاتا ہے۔
پنجاب اسمبلی
لاہور( خصوصی رپورٹر/خصوصی نامہ نگار) حمزہ شہباز نے پنجاب اسمبلی میں امن و امان کی صورتحال پرائس کنٹرول امن و امان کی صورتحال پر مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے عام انتخابات میں دھاندلی کے جو ریکارڈ قائم ہوئے بہت جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ،یہ جمہوریت کے سینے پر ایک داغ ہزاروں بلدیاتی نمائندے عوام کے ووٹ لے کر آئے ہیں انہیں مدت پوری کرنے دی جائے، کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی قدم اٹھایا گیا تو ہم نہ صرف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے بلکہ بھر پور مزاحمت بھی کرینگے ۔ خوشی کہ سیف سٹی پراجیکٹ کو مزید شہروں تک توسیع دی جا رہی ہے وزیر خزانہ اسد عمر کہتے تھے میں200ارب ڈالر لے کر آﺅں گا لیکن وہ اب تک کیوں نہیںلے کر آئے ، اگر وہ یہ رقم لے آتے تو مہنگائی کا طوفان تونہ آتا ۔ یہ منی بجٹ نہیں بلکہ مہنگائی کا طوفان ہے۔حکومتی ٹیکسز سے بے روز گاری کا طوفان آئے گا ۔عمران خان تو کہتے تھے کہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے لیکن آپ نے ایک بار پھر یوٹرن لے لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تنقید برائے تنقید کا وقت گزر گیا ہم آپ کو وقت دینا چاہتے ہیں آپ کام کریں پورا رتعاون کریں گے۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر ہمیں غدار کہا گیا لیکن جب موجودہ حکومت نے مذاکرات کیلئے بھارت کو خط لکھا تو انہوں نے طے شدہ میٹنگ بھی منسوخ کر دی یہ قوم کی توہین ہے۔