• news

ڈی پی او پاکپتن تبادلہ : عثمان بزدار‘ کلیم امام‘ احسن گجر کی معافی قبول‘ شکایت ملی تو کیس دوبارہ کھول دینگے : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی معافی قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا، چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ اگر آئندہ ایسی شکایت ملی تو کیس دوبارہ کھول دیا جائےگا۔ عدالت نے اپنے حکم میں احسن جمیل گجر کے عمل کی مذمت اور تفتیشی افسر خالق داد لک کی تعریف کی، چیف جسٹس نے کہا میں تو پانچ دن میں اس بندے سے پریشان ہو گیا ہوں، میری طرف سے اس سے متعلق وزیراعظم کو اظہار ناپسندیدگی کا بتادیں، کیا یہ ہیں نیا پاکستان بنانے والے؟ وزیراعظم کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت رہنے تک عثمان بزدار وزیراعلی رہیں گے، اگر وزیراعلی پنجاب رہیں گے تو عدالت کے حکم کے تحت رہیں گے، احسن جمیل گجر یہاں گجر کی بدمعاشی نہیں چلے گی، یہ پاکستان ہے، جتنے دن میں ہوں دو ڈھائی ماہ محتاط رہنا۔ پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل گجر نے نیکٹا سربراہ اور سینئر پولیس افسر خالق داد لک کی رپورٹ پر جمع کروائے گئے اپنے جوابات واپس لے لیے۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت عظمی کو معاملہ دوسرے زاویے سے دیکھنے کی استدعا کی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملے کو جس زاویے سے بھی دیکھیں حقائق وہی رہیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کے روبرو کہا کہ معاملہ حساس تھا، اس لیے احسن جمیل گجر نے وزیراعلی سے بات کی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعلی نے تو ملاقات نہیں کی بلکہ پرائیویٹ شخص کو ملاقات کے لیے بلایا۔ جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس معاملے کو آسان لے رہے ہیں، وزیراعلی نے خالق داد لک سے متعلق کیا زبان استعمال کی ہے؟ 'انہوں نے کہا آپ ایک بہترین افسر کے بارے میں ایسا لکھ رہے ہیں، آپ نے انکوائری افسر پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ معافی کے دائرے سے باہر نکلتے جا رہے ہیں، میں خود اس معاملے کی انکوائری کر لیتا ہوں، کہتے ہیں تو جے آئی ٹی بنوا لیتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت رہنے تک عثمان بزدار وزیراعلی رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عثمان بزدار وزیراعلی پنجاب رہیں گے تو عدالت کے حکم کے تحت رہیں گے۔ سماعت کے دوران وکیل رہنما احسن بھون روسٹرم پر آئے تو عدالت نے انہیں منع کردیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا، جہاں رول آف لا کی بات آئے گی، میں کسی لیڈر کو نہیں مانتا، کیا آپ وکلا ایسا رول آف لا چاہتے ہیں؟، احسن بھون نے جواب دیا کہ میں 1980 سے احسن جمیل کو جانتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں تو پانچ دن میں اس بندے سے پریشان ہو گیا ہوں، میری طرف سے اس سے متعلق وزیراعظم کواظہار ناپسندیدگی کا بتادیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ کیا یہ ہے نیا پاکستان جو حکومت بنانے جارہی ہے۔ بعدازاں چیف جسٹس نے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی کلیم امام اور وزیراعلی کے دوست احسن جمیل گجر کو تحریری معافی نامہ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ معافی سٹرانگ ورڈز میں مانگیں۔ عدالت کی ہدایات کے بعد وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی جانب سے عدالت میں تحریری معافی نامے داخل کرائے گئے۔ وزیراعلی پنجاب کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے ان کا معافی نامہ جمع کرایا جسے پڑھنے کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے اسے قبول کرلیا۔ وزیراعلی کے بعد سابق آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی جانب سے بھی تحریری معافی نامہ جمع کرایا گیا، احسن جمیل نے معافی نامہ جمع کراتے ہوئے عدالت سے کہا کہ میں شرمندگی کا اظہار کرتا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے دل سے معافی نہیں مانگی، احسن جمیل نے کہا کہ معافی دل سے ہی مانگی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے احسن جمیل گجر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احسن جمیل گجر یہاں گجر کی بدمعاشی نہیں چلے گی، یہ پاکستان ہے، جتنے دن میں ہوں دو ڈھائی ماہ محتاط رہنا۔ عدالت عظمی نے وزیراعلی سمیت سابق آئی جی اور احسن جمیل کا معافی نامہ قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا جب کہ ساتھ ہی چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ اگر آئندہ ایسی شکایت ملی تو کیس دوبارہ کھول دیا جائےگا۔ عدالت نے اپنے حکم میں احسن جمیل گجر کے عمل کی مذمت اور تفتیشی افسر خالق داد لک کی تعریف کی۔
چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن