آخری کتاب
میری زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ میں نے کبھی لوگوں سے کیا کوئی وعدہ نہیں نبھایا۔ کبھی کسی کو خوش دیکھنے کی خواہش نہیں کی ۔ کبھی کسی نیکی کے قریب نہیں گیا ۔ ہر گناہ کا مزہ چکھ لیا ۔یہاں تک کہ میں برائی کی آخری حد تک کو پہنچ گیا ۔ یہ وہ مقام تھاکہ جب میری راتوںکی نیندیں اڑ گئی ، دن کا چین فنا ہوگیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میںنے اپنی اب تک زندگی کس قدر غفلت میں گزار دی ۔ میں ہدایت کا طلب گار بن گیا مگر یہ وہ وقت تھا کہ ہر زاہد نے مجھے دھتکار دیا ۔ ہر متقی نے اپنے گھر کا دروازہ مجھے پر بند کر دیا ۔ ہر پرہیز گار نے مجھے ناقابل معافی قرار دیا اور ہر منبر پر چڑھنے والے نے مجھے مٹی میں دب جانے کا کہا… میں مایوس ہوگیا ۔ وہ برسات کی رات تھی جب روتے روتے میں نے آخرکار وہ آخری کتاب کھولی۔ میں ڈرتا تھا کہ میرے ہاتھ اسے چھونے کے قابل نہیں مگر اس کتاب نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر کبھی نہیں چھوڑا اس کتاب نے مجھے دھتکارا نہیں اس کتاب نے مجھے گلے لگایا۔ اس کتاب نے مجھے یہ نہیں یاد دلایاکہ میں کتنا گرا ہوا ہوں ۔ اس کتاب نے مجھے یہ بتایا کہ میں خود کو کتنا اٹھا سکتا ہوں ۔ یہ آخری کتاب ایک خوبصورت معجزہ ہے جس نے میری ریت کے مکان میں چھت ڈال دی ۔