’’بنام قابل احترام چیف جسٹس‘‘
پاکستان کے معاشی حالات اس قدر’’ گھمبیر ‘‘ہو چکے ہیں کہ ایک غریب آدمی کا’’ جسم و جان‘‘ کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہو چکا ہے ۔کسی محکمے میں ’’ جھانک‘‘ کر دیکھیں تو آپ کو وہاں’’ کرپشن‘‘ نظر آئیگی ،ماضی میں قائم حکومتوں نے ملک و قوم کے ساتھ جو کچھ کیا ہے۔ آہستہ آہستہ اس سے ’’پرتیں ہٹ ‘‘ رہی ہیں ۔قوم کو پتہ چل رہا ہے کہ اسکے ساتھ کیا ہوا۔سود پر قرضے لیکر ہر محکمے کو ’’ڈبویا‘‘ گیااس لیے آج ہمیں ضرور یہ مانناپڑیگا کہ ارضَِ مقدس پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کو مْلک و قوم اور معیشت کے ساتھ پوری طرح ’’مخلص ‘‘ہونے اور ترقی و خوشحالی کی را ہ پر گامزن کرنے کا ’’تمغہ ‘‘نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اِس پاک سر زمین کو71 سالوں سے’’ اشرافیہ‘‘ لوٹ کھارہی ہے۔ اِس عرصے کے دوران خواہ سِول حکمران ہو یا آمر سب ہی نے ملک اور قوم کواپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کیلئے ’’ثوابِ دارین‘‘ سمجھ کر استعمال کیا۔اب اگر احتسا بی اداروں کی جانب سے احتسابی عمل شروع ہو ا ہے تو ماضی میں قومی خزانے کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی جماعتیں کہ رہی ہیں یہ احتساب نہیں ’’ انتقام‘‘ ہے ۔ اس وقت جو ’’ احتسا بی شکنجے ‘‘ میں جکڑے جارہے ہیں وہ انکے اپنے ’’ ظاہر و باطن‘‘ اور ’’سیاہ کرتوتوں ‘‘کا نتیجہ ہے۔اس کا ’’ ملبہ نادیدہ قوتوں‘‘ کے سر پر ڈال کر عوام کے سا منے مگر مچھ کے آنسو نہ بہا ئے جائیں۔ یہ لوگ ملک وقوم اور اداروں کی جڑیں کھوکھلی کرنیوالے گلے سڑے ’’متعفن ‘‘نظام کو واپس لانے کیلئے کوشاں ہیں ،ڈاکوؤں کے بنائے نظام کے تحت آج تک ڈاکو پکڑے جا سکے۔ کرپشن،لوٹ مار کرنیوالی اشرافیہ نے آ ئینی،قانونی،اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیاہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی 50 دنوں میں بیرون ملک 10 ہزار سے زائد جائیدادوں کا سراغ لگا لیا ہے۔ ایف آئی اے، ایف بی آر،نیب اوردیگر متعلقہ ادارے متحرک ہو چکے ہیں ۔مختلف ممالک کیساتھ معاہدے نہ ہونے کی وجہ ماضی کے حکمرانوں کی ’’کوتاہیاں‘‘ تھیں۔دبئی میں 3 ہاوسنگ سوسائیٹز کی تفصیلات حکومت کو مل چکی ہیں جبکہ دس ہزار پراپرٹیز برطانیہ اور یو اے ای میں شناخت کرلی گئی ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں 4221 لوگوں کے اثاثے اور اکاؤنٹس ہیں ۔ایک بات واضح ہے کہ وہ افراد جو غیر قانونی طور پر پیسے بیرون ملک لیکر گئے تھے ۔صرف انکے ’’ گرد گھیرا‘‘ تنگ کیا جا رہا ہے ۔کرپشن ، ٹیکس چوری اور لوٹ مار کرنے والوں کو اپنی خیر منانی چاہیئے۔وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان بیرون ملک پیسہ واپس لانے کیلئے متحرک ہیں ۔لیکن اس سلسلے میں وزیراعظم اپنی احتساب کو ٹیم کو پابند کریں کہ وہ کسی ایسے آدمی کو مت تنگ کرے جو قانونی طور پر باہر پیسے لے کر گئے ہیں ۔ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال’’ انتہائی ‘‘خراب تھی۔ آئے روز بم دھماکے اورٹارگٹ کلنگ ہوتی تھی ۔زرمبادلہ کے ذخائر دن بدن کم ہو رہے تھے ،ڈالر کی قیمت بھی بڑھتی جا رہی تھی اور روپے کی قدر کم ہو رہی تھی ان حالات میں لوگ اگر پیسہ باہر منتقل نہ کرتے تو کیا کرتے۔ لہذا لوٹ مار اور حلال کی کمائی میں فرق کرنا لازمی ہے ۔جو لوگ جائز طور پر پیسے باہر لے کر گئے ہیں وہ اب خود بخود حالات ٹھیک ہونے پر واپس لے آئیں گے لہذا انھیں ایک موقع دینا ضروری ہے ۔اس سلسلے میں عزت مآب چیف جسٹس صاحب احکامات جاری کریں کہ جو افراد خود بخود پیسے واپس لا رہے ہیں انھیں بلا جواز تنگ مت کیا جائے ۔ ’’نجی سکولز کی ناروا فیسیں‘‘
اس وقت پاکستان میں 2کروڑ 26 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ پہلی سے دسویں جماعت تک صرف 30فیصد بچے ہی سکولوں میں داخل رہتے ہیں اور اپنی تعلیم مکمل کرپاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی سے دسویں جماعت کے درمیان 70 فیصد بچے اپنی تعلیم مکمل کئے بغیر سکول چھوڑ دیتے ہیں۔اگر ہم سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے یہ اعدادوشما ر کافی نہیں تو حالات کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سکولوں میں داخل بچوں کی اکثریت سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم ہے۔ کیونکہ پرائیویٹ سکولز کی تعلیم اس قدر مہنگی ہے کہ عام آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔گزشتہ چند دہائیوں میں ان سرکاری سکولوں کے نصاب کے معیار ، طریقہِ تدریس اور انفراسٹرکچر میں ’’بے پناہ تنزلی‘‘ دیکھنے میں آئی ہے جسکے باعث ملک بھر میں پرائیویٹ سکولوں کا جال بچھ چکا ہے ۔ پرائیویٹ سکولوں کے ’’ معیارِ تعلیم‘‘ اور فیسوں پر بھی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ۔ اس وقت والدین دراصل ایک ’’ سکول مافیا‘‘ کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر مافیا کے قبضے کا مطلب یہ ہے کہ کسٹمرز، یعنی طالب علم اور انکے والدین، کے پاس سکولوں میں داخلے اور انکے معیار کے حوالے سے ’’ انتہائی محدود‘‘ آپشن ہیں۔ پرائیویٹ سکول اپنی مرضی کیمطابق ہر سال اپنی سالانہ فیسوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ سکول میں داخل بچوں کے والدین کے احتجاج کو بھی کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔حالانکہ پنجاب حکومت نے پرائیویٹ سکولوں کی فیس میں ایک’’ مخصوص شرح‘‘ سے زیادہ اضافہ نہ کرنے کا قانون منظور بھی کیا تھا ۔اسی طرح سندھ میں بھی پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں اضافے کیخلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ کیا گیا تھا ۔ پاکستانی کے غریب عوام کے علاوہ امیر طبقے کو بھی سکول مافیا کے ’’چنگل سے چھڑانے‘‘ کیلئے سرکاری سکولوں میں بہتری لانا ناگزیر ہوچکا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس سلسلے میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔امید ہے اسکے بعد سکولز کی حالت زار بہتر ہو گی اور فیسوں میں بھی خاطر خواہ کمی آئیگی۔