• news
  • image

چوکیدار

ہیرے جواہرات سے مزین و مرصع لشکتی، چمکتی، جھلمل کرتی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بادشاہ نے وزیردربار امیر عباس سے ٹائم پوچھا،اس نے اس گھڑی کو دیکھتے ہوئے دست بستہ جواب دیا۔ ’’شہنشاہ معظم 6 بجے ہیں‘‘۔ شاہ نے گھڑی کی چابی کو چٹکی میں لیتے ہوئے بیزاری سے کہا۔ ’’یہ کم بخت پانچ بجا رہی ہے‘‘۔ وزیر دربار نے فوری طور پر کہا۔ ’’شہنشاہ مکرم،قربان جاؤں، آپ گھڑی آگے کرنے کی زحمت نہ فرمائیے۔ ہم ساڑھے تین کروڑ غلام اپنی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر لیتے ہیں۔ شہنشاہ نے ایک مرتبہ بادشاہت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن منانے کا اعلان کیا۔ کیلنڈر کے مطابق بادشاہت کو ابھی ڈیڑھ ہزار سال ہوئے تھے۔ بادشاہ سلامت نے کیلنڈر ایک ہزار سال آگے کرنے کا حکم دیدیا جس کی تعمیل کر دی گئی۔بادشاہ کے ایک حکم پر چالیس ہزار امریکیوں کو سفارتکار کا درجہ دیدیا گیا تھا۔
1979ء کو حالات اس نہج پر پہنچے کہ محمد رضا شاہ پہلوی کو خاندان سمیت ایران سے فرار ہوکر پناہ کی تلاش میں دربدر ہونا پڑا۔ انور سادات نے ایران کے انقلابیوں کی پرواء نہ کرتے ہوئے مصر آنے کی اجازت دیدی۔جب وہ بے کسی اور بے بسی سے مر رہے تھے تو کمرے میں ملکہ فرح دیبا، انکی سسکیاں اور ماضی کی تلخ یادوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ انہیں اسی کمرے میں بلدیہ کے چار اہلکاروں نے گڑھا کھود کربغیر جنازہ کے دبادیا۔شہنشاہ اقتدار سے الگ ہونے کے دو سال بعد زمانے کی بے اعتنائی اور انتہائی رسوائی کے بعد دنیا چھوڑ گیا مگر ملکہ فرح دیبا آج بھی سسکتی بلکتی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ ایرانیوں کی نفرت اور قدرت کے انتقام کا مجسم پیکر ہے۔ کبھی فرانس، کبھی مصر اور کبھی امریکہ میں ہوتی ہے۔ شاید دولت کی کمی نہ ہو مگر فراوانی بھی نہیں۔ کبھی اسکے محل میں 60 خادم اور کنیزائیںہوتی تھیں۔ آج اسے ایک خاتون باورچی اور ایک ڈرائیور میسرہے ۔ ایسی بدنصیب عورت!۔ بادشاہت گئی، جلاوطن ہونا پڑا، دیار غیر میں خاوند مر گیا، ایک بیٹے علی رضا نے خودکشی کر لی، لیلیٰ پہلوی منشیات کی لت میں پڑ کر جان سے چلی گئی، کروفر سے زندگی گزارنے والی ملکہ کی اب بیٹی فرح نازپہلوی اور بیٹا رضا شاہ پہلوی الگ الگ ملکوں میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی جتنے بھی اعلیٰ منصب تک پہنچے وہ شہنشاہ ایران کی طرح طاقتور اور دولت مند نہیں ہو سکتا۔ شہنشاہ ایرانجتنے بھی دانشور تھے مگر بدلتے حالات کیساتھ عوام کے جذبات میں بدلاؤ کا ادراک نہ کر سکے۔ ان کا عوام کی نبض پر ہاتھ ہوتا تو وہ خود کو عوامی جذبات کے سانچے میں ڈھال لیتے یا عوام کو کسی بھی طرح اپنے ساتھ ہم آہنگ رکھتے ایسا ڈنڈے کے زور اور بندوق کے بور پر نہیں ہو سکتا تھا۔ 2018ء کے انتخابات میں دنیا نے پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی دیکھی جسے ملک کی طاقتور اشرافیہ قبول کرنے پر تیار نہیں۔ عمران خان کڑے احتساب سمیت بہت کچھ کرنے کیلئے پُر عزم ہیں۔ مگر مدمقابل طبقہ انکی طرح سادہ لوح نہیں کایاں شاطر اوربڑا گُروہے۔ نیب جس طرح متحرک ہے کرپٹ مافیا خوفزدہ ہے۔ اس نے ایسا وار، کام اور انتظام کیا کہ حکومت کو اپنی پڑ گئی۔ سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی، ڈالر نے بڑی زقند بھری اور حکومت کو اپنے بڑھک نمانعروںکے برعکس آئی ایم ایف کے درِ دولت پر دستک دینا پڑی۔ اسی افراتفری میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان سے کسی مرکزی اور کسی صوبے کی حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اپوزیشن متحد ہو کر پنجاب میں 11 کی گیارہ سیٹیں جیت لے تب بھی پی ٹی آئی کی 191 کے مقابلے میں اپوزیشن کی 169 نشستوں میں 11 کے اضافے سے بھی حکومتی برتری ختم نہیں ہوگی۔ قومی اسمبلی کی 12 نشستوں پر الیکشن ہو رہے ہیں ان میں سے زیادہ پی ٹی آئی نے چھوڑی ہیں۔ بنوں والی سیٹ ڈانواں ڈول لگتی ہے۔ اسلام آباد، پنڈی، چکوال، گجرات میں پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر نظرآتی ہے۔ اسلام آباد میں ن لیگ کو برتری نظر آتی تو شاہد خاقان عباسی کو لاہور میں امپورٹ نہ کرنا پڑتا، انکے جیتنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ لاہور میں خواجہ سعد رفیق اور ہمایوں اختر کے مابین برابر کا جوڑ ہے جہاں دولت، مہارت داؤ پیچ اور کاریگری کا مقابلہ ہے۔ سعد رفیق اور ہمایوں اختر ان میں یکساں طاق اور تجربہ کار ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ۔’’ خواجہ سعد رفیق نے اپنے حلقے سے آٹھ ہزار لوگ ریلوے میں بھرتی کرائے انہوں نے الیکشن جیتنا ہی ہے‘‘۔ سعد رفیق کیلئے نیب کی دلدل سے نکلنا مشکل نظر آتا ہے ان کیخلاف فواد اور احد چیمہ سے زیادہ بھی بڑا گواہ تیار ہے۔
اپنے حلقے سے خورشید شاہ پر بھی ہزاروں افراد کو سرکاری نوکریاں دینے کا الزام ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر نوکریاں دی جائیں توحق تلفی کا اندازہ ملتان سے ایم پی اے عمیر کے فون سے ہو سکتا ہے۔ ایکسیڈنٹ کے بعدٹیکسٹائل مل سے لیبر افسر کی ملازمت چلی گئی۔ ادھر ادھر اپلائی کیا لاہور میں ایڈمن منیجر کی نوکری مل گئی جائن کرنے گئے تو فیکٹری مالک کو ایمرجنسی میں ایک ماہ کیلئے باہر جانا پڑ گیا ۔ کرائے کا گھر خالی کرنا پڑا۔ عمیر چار بچوں سمیت سڑک پر آ چکا ہے۔ فون (0345-4859697) پر کہہ رہاتھا بڑے لوگوں کے گھروں میں سرونٹ کوارٹر ہوتے ہیں ایسے کسی گھر میں چوکیدار یا ڈرائیور رکھوا دیں،بچوں کی چھت تو مل پائے گی۔ ہمارے سیاستدان میرٹ کو حرز جاں بنائیں توسیاست عبادت اور خدمت خلق ہو گی۔ حلقے کے لوگوں کو راضی کرنا ہے تو اپنے کارخانوں میں ملازمتیں دیں۔ کوئی شہنشاہ ایران جتنا طاقتور اور دولت مند نہیں،اس کا درد ناک انجام ملحوظ رہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

فضل حسین اعوان....شفق

epaper

ای پیپر-دی نیشن