’’نیا پاکستان آصف زرداری نے بنایا تھا‘‘
چند روز قبل میں پروفیسر نصیر چودھری کے گھر گیا تاکہ فلیٹیز ہوٹل میں حکیم محمد سعید شہید کی یاد میں ہونے والے اجلاس میں نصیر چودھری کو بھی ساتھ لے جائوں۔ وہ مجھے ایک کمرے میں بٹھا کر لباس تبدیل کرنے چلے گئے۔ جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں اقبال چشتی کی لکھی ہوئی کتاب ’’نیا پاکستان‘‘ بھی تھی۔ یہ کتاب انہوں نے مجھے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اقبال چشتی صاحب نے مجھے دو کتابیں دی تھیں۔ ایک آپ کیلئے تھی اور دوسری میرے لئے تھی لہٰذا یہ کتاب پیش کر رہا ہوں۔ اقبال چشتی کی فرمائش تھی کہ راجا صاحب اس کتاب پر ایک کالم بھی تحریر کر دیں تو میں ان کا شکرگزار بن جائوں گا۔ میں نے نیا پاکستان کتاب لے لی۔ کتاب کے عقبی سرورق پر مصنف اقبال چشتی کی ایک خوبصورت رنگین تصویر بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ کتاب کے سرورق پر پاکستانی پرچم بنا ہوا تھا اور پرچم کے ایک حصہ پر پاکستان کا نقشہ اپنی دھنک دکھا رہا تھا۔ باقی سرورق پرسرخ رنگ پرنیلے رنگ سے نیا پاکستان لکھا ہوا ہے اور زرد رنگ کے چار پانچ ستارے جگمگا رہے ہیں۔ کتاب کا انتساب اقبال چشتی نے اپنی مرحومہ بیگم ثریا خانم کے نام کیا ہے اور اپنے دادا‘ والد‘ بیگم‘ بہن‘ بھائیوں اور اپنے دو بیٹوں اور بیٹی کی تصاویر بھی کتاب میں شامل ہیں۔
سج گئی ہے ساری تصویرروں سے چشتی کی کتاب
کتاب کے ابتدائیہ میں اقبال چشتی نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال یہ مصرعہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ میرے ایمان کا حصہ رہا ہے۔ فکر اقبال سے میں ہمیشہ روحانی فیض حاصل کرتا رہا ہوں۔ علامہ اقبال سے میرے بزرگوں کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ میرے دادا صوفی بزرگ محمد حسین قیس چشتی علامہ اقبال کے حلقہ نیابت میں شامل رہے۔ میری روحانی تربیت کا منبع میرے دادا جان ہی تھے۔ اس لئے مجھ پر فکر اقبال کا اثر ایک قدرتی امر تھا۔ ’’تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوںکی چٹانوں پر‘‘ ہمیشہ میری زندگی کا بنیادی اور مرکزی مقصد رہا ہے۔ جس کے تحت میں نے اپنی زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ قائد اعظم سے اپنی محبت اور عقیدت کا انکشاف کرتے ہوئے اس کتاب میں اقبال چشتی نے لکھا ہے کہ 30 اکتوبر 1947ء کو قائداعظم نے یونیورسٹی گرائونڈ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ جلقہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں تھی۔ مجھے قائداعظم سے ملنا تھا۔ میں سٹیج کی طرف بڑھا اور سٹیج پر چڑھ گیا۔ منتظمین نے مجھے روکنے کی کوشش کی‘ لیکن میرے مضبوط ارادے نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ میں ڈائس کی قریب فرشی دری پر بیٹھ گیا۔ میں قائداعظم کے قدموں میں بیٹھا ان کی تقریر سنتا رہا۔ تقریب کے اختتام پر میں آگے بڑھا اور قائداعظم کی ٹانگوں سے لپیٹ گیا۔ ان کے ہاتھ تھام لئے۔ قائداعظم نے شفقت اور محبت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور یوں گلے ملنے کی خواہش پوری ہو گئی۔ روڈ ٹو مکہ کے مصنف ڈاکٹر محمد اسد سے بھی انہیں ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسد کے بارے میں انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ قائداعظم نے انہیں پاکستان کا سب سے پہلا شہری قرار دیا۔ پھر پاکستان کا سب سے پہلا پاسپورٹ بھی ڈاکٹر محمد اسد کے نام سے جاری ہوا۔ یہ ڈاکٹر محمد اسد ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا سب سے پہلے تصور پیش کیا تھا۔ اقبال چشتی نے لکھا ہے کہ ڈاکٹرمحمد اسد کا اصل مذہب یہودی تھا لیکن وہ 1926ء میں مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ علامہ محمد اسد کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا پہلا سفیر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ 80 برس کی عمر میں انہوں نے قرآن پاک کیانگریزی زبان میں ترجمہ اورتفسیر کومکمل کیا۔ فروری 1992ء میں ان کا انتقال اسپین میں ہوا۔ وہیں ان کی تدفین ہوئی۔ اس کتاب میں اقبال چشتی نے جن دوستوں پر مضامین لکھے ہیں ان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ ولسن، حبیب جالب، یونس حسن خواجہ شہید، نریندر کور، ثریا خانم ، خان عبدالقیوم خان، رگبی کا لارڈ جیمز شیرا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب میں کالا باغ ڈیم، پاک چین اقتصادی راہداری اور روس، نیا پاکستان اور نواز شریف، کراچی میں بھارتی ایجنڈا، پاک چین راہداری کو سبوتاژ کرنے کا بھارتی منصوبہ، گوادر نعمتِ خداوندی اور راج موہن گاندھی کی خواہشِ بد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تماممضامین مصنف کی بالغ نظری کی دلیل ہیں۔
اب آتے ہیں اقبال چشتی کے ان مضامین کی طرف جو انہوں نے علامہ طاہر القادری اور آصف زرداری کے بارے میں قلم بند کئے ہیں۔ ان مضامین میں اقبال چشتی نے عمران خان کو بھی تحریری رگڑے لگائے ہیں۔ چشتی صاحب نے لکھا ہے کہ دونوں کی اولادوں نے ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی خدمات پر ایک مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیادیں رکھ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے آصف زرداری کی شخصیت کو کرشماتی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی صدارت کے دوران زبردست سیاسی کرشمے دکھائے ہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ ’’نیا پاکستان‘‘ آصف زرداری ہی نے بنایا ہے لیکن اقبال چشتی نے آصف زرداری کی مالی کرپشن کو بے نقاب نہیں کیا جو انہوں نے ’’نئے پاکستان‘‘ میں کیں تھیں۔