• news
  • image

دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو

قارئین شائد آپکو یاد ہو کہ میں نے اپنے ایک کالم میں نے اپنے بچوں کے ٹرپل ون بریگیڈ سے تھنک ٹینک کے سفر پر ایک قصہ بیان کیا تھا۔ مزے کی بات آجکل میرے اس تھنک ٹینک میں ایک اور ایسے فرد کا اضافہ ہو گیا ہے جسے عملی زندگی میں دیکھوں تو زندگی کے سفر کا سب سے بڑا اتحادی دکھائی دیتا ہے جبکہ تبادلہ خیالات میں کوئی ایسی کسر نہیں چھوڑتا جس سے یہ تاثر نہ ملے کہ اپنی حزب مخالف کی صفوں میں اس سے بڑا شہسوار شاید ہی کوئی اور ہو۔ دوستو یہ شخص کوئی اور نہیں یہ میری شریک حیات ہے۔ اپنے اپنے علم اور اپنے اپنے فلسفے کی بنیاد پر ہم دونوں بیٹھے اس بات پر اپنی فکر کے اظہار میں مصروف تھے کہ کس طرح پاکستان کے موجودہ معاشی حالات ہمارے معاشرے میں پہلے سے موجود طبقاتی تفریق کی خلیج کو اور وسیع کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور یہ معاشرتی تفریق آگے چل کر ہمارے پورے سماج کی تباہی کا کس طرح باعث بن سکتی ہے۔ ابھی ہم اس پر گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ہمارے تھنک ٹینک کا ایک رْکن گیارہ سالہ زاویار خان جو میری سلطنت کا ولی عہد بھی ہے قریب بیٹھے کمپیوٹر پر اپنی طلسماتی انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ کے ذریعے کوئی جادو جگانے کے چکروں میں مصروف لگ رہے تھا اچانک کچھ اسطرح گویا ہوا کہ کیا آپکو پتہ ہے کہ جس معاشرتی تفریق کی اپ بات کر رہے ہیں اسکا شکار صرف آپکا ملک پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ہونے جا رہی ہے کیونکہ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں گلوبل لیول پر کچھ بہت بڑی تجارتی جنگوں کا امکان پایا جا رہا ہے۔ برطانیہ کا ذکر کرتے جہاں وہ پیدا ہوا ہے اور جہاں وہ پڑھ لکھ رہا ہے زاویار کہنے لگا کہ یہ ملک بھی Brexit کے اوپر پورے یورپ کے ساتھ ایک جنگ لڑنے جا رہا ہے لیکن اس جنگ میں اسے یہ Edge حاصل ہے کہ اسکی قیادت نہ صرف اپنے ملک سے وفادار ہے بلکہ اس میں معاملات سے نمٹنے کی صلاحیتیں بھی ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ میری ریسرچ بتا رہی ہے کہ آپکے خطے میں بھی ایک بہت بڑی تجارتی جنگ ہونے جا رہی ہے جسکے فریق دو بڑی عالمی طاقتیں امریکہ اور چین ہونگے جبکہ نقصان آپکے ملک پاکستان کے ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ قارئین یقین جانئیے اس بچے جو کہ ماشاالہہ اپنی زندگی کی گیارہویں بہار دیکھ رہا ہے کے خیالات سْن کر میں حیران اور پریشان ہو گیا ہوں اور پچھلے دو دن سے اپنے آپ سے بار بار سوال کر رہا ہوں کہ کیا واقعی ہم اتنے بے خبر ہیں کہ آنے والے خطروں کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کر سکتے ہیں۔ قارئین بحران کن ملکوں میں نہیں آتے۔ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں 2008ء کی بات ہے پوری دنیا کساد بازاری کا شکار ہوئی۔ یہاں برطانیہ میں لیبر حکومت کی پبلک سیکٹر میں زیادہ خرچ کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے حکومت کے ذمہ الادا قرضہ جات میں بے پناہ آضافہ ہو چکا تھا۔ کنزرویٹو پارٹی نے حکومت میں آنے کے ساتھ ہی اپنی پالیسی کے تحت تمام اخراجات میں کٹوتی کا فیصلہ کیا تمام سطحوں پر تنخواہیں منجمند کر دی گئیں کہ اگلے کچھ سالوں میں ان میں اضافہ نہیں ہو گا۔ حکومت نے اپنے تمام حکومتی اخراجات پر کٹ لگا دی۔ حکومت کے دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی غیر ضروری اشیاء کے استعمال میں تصرف برتنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تین چار سالوں میں حکومتی قرضے قابل قدر حد تک نیچے آ گئے اور معاشی بحران ہواؤں میں تحلیل ہو گیا۔ اب ہم آتے ہیں اپنے پاکستان کی طرف۔ بیشک سابقہ حکومتوں کی طرف سے لیئے گئے قرضوں کا ایک انبار نظر آتا ہے لیکن دوسری طرف صرف پاکستان کے امپورٹ بل پر نظر دوڑائیں تو جہاں آپکو ایک طرف مہنگی ترین لگژری گاڑیوں کا امپورٹ بل نظر آئیگا وہیں پر اتنی مالیت کے چائنہ سے درآمد کی ہوئی پلاسٹک کی hair accessories اور دوسرے ڈیکوریشن پیسیز اور غیر ضروری کوڑ کباڑ کا بل نظر آئیگا۔ اگر ایک طرف آسٹریلیا، ہالینڈ، اٹلی اور نیوزی لینڈ سے پنیر، زیتون، ناشپاتی اور سیب درآمد ہوتے نظر ائیں گے تو اسی طرح انڈیا سے ٹماٹر، کریلے اور بھنڈیاں درآمد ہوتی ملیں گی۔ جب یہ حال ہو گا تو آپکا درآمدی بل اربوں ڈالر پر نہیں جائیگا تو پھر کیا ہو گا۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم میں قربانی تو درکنار صبر کرنے کا جذبہ تک نہیں پھر کوستے ہیں کہ ہمارے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔ گہرائی میں جائیں جہاں حالات کے سدھار کے لیئے عوام کی طرف سے صبر اور قربانی کا جذبہ درکار ہے وہیں پر ارباب اقتدار کی طرف سے تدبر کے مظاہرے کی بھی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ ہماری بدنصیبی دیکھیں کہ پچھلے ہی ہفتے جہاں کہیں کسی وزیر مشیر کے سی پیک کے حوالے سے کسی غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ بیان کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ اور سٹاک مارکیٹ میں اتار و چڑھاؤ شروع ہوتا ہے وہاں پر بجائے اسکے ملکی قیادت آگے بڑھ کر کوئی مثبت پیغام دے کر انویسڑز کے اعتماد کو سہارا دے وہیں شام کو قیادت کی طرف سے ایسا اعلان ہوتا ہے کہ انویسٹرز کے اندیشے اور خطرے یقین میں بدل جاتے ہیں اور ملکی کرنسی اور سٹاک مارکیٹ بیٹھتی ہی نہیں بلکہ اسکا جنازہ نکل جاتا ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا :
’’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں‘‘

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

epaper

ای پیپر-دی نیشن