شہریار آفریدی متوجہ ہوں …
پہلا منظر نامہ : موجودہ وزیر َ اعظم ، سابقہ نجات دہندہ ، عمران خان :
پاکستانیو!! یہ تارکین وطن ، مجھ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ ایک دفعہ میں وزیر ِ اعظم بن گیا ، تو نہ صرف ان کا سرمایہ بلکہ یہ خود بھی اپنا ٹیلنٹ لے کر واپس پاکستان آئیں گے ۔۔ تارکین ِ وطن میرا بہت بڑا سرمایہ ہیں ۔
دوسرا منظر نامہ : ایک سنئیر صحافی ، سابقہ بیورکریٹ ، ایک ملک کے لئے تڑپتے ہو ئے بیرون ملک بیٹھے صحافی کو مشورہ دیتے ہوئے :
تم لوگ ، جہاں بیٹھے ہو ، وہاں کے مسائل دیکھو ۔۔ مہاجرین کی سب سے بڑی مصیبت ہی یہی ہے ،پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں ۔
تیسرا منظر نامہ :آرمی آفیسرز ، بیورکریٹس ، اداکار ، صحافی ، سیاست دان ، ان میں سے کون ہے جو حاضر سروس ہو تے ہو ئے پاکستان سے بھر پورفائدہ نہیں اٹھا رہا اور اسی دوران اپنے بچوں کو بھی باہر سٹیل نہیں کر رہا ۔ اپنی شہرت ،عزت اور ہائی فائی سٹیٹس کے مزے پاکستان میں لیتے ہیں اور جب ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو اپنے بچوں کے پاس باہر کے ممالک میں آجاتے ہیں ۔ ہاں اگر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستان انہیں کسی نہ کسی صورت مراعات دیتے رہے تو پھر ٹھیک ہے ورنہ لعنت ۔۔۔ا ور بیرون ملک ہم جیسے مہاجروں کا جی جلانے ہمارے ساتھ آبستے ہیں ۔ جنہیں حاضر سروس ہوتے ہو ئے یہ کہہ کر ملکی معاملات میں جھڑک کر بٹھا دیتے ہیں کہ تم لوگ تو یہ ملک چھوڑ چکے ہو ، تمھارا اس ملک سے کیا لینا دینا ؟
چوتھا منظر نامہ : جب سابقہ آرمی چیفس تک اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ، اپنا ملک چھوڑ کر باہر کے ملکوں میں سکون کی زندگی گذارنے کو ترجیع دیتے ہیں ۔۔ کیا ان سے کوئی صحافی یہ پوچھے گا کہ کون سی محب وطنی کا سبق ، لوگوں کو رٹاتے رہے ہو ؟ کس ملک کی سرحدوں کے اوپر غریبوں کے بچوں کا لہو بہاتے رہو ؟ کس حیثیت سے اس ملک پر راج کرتے رہے ہو ، جس میں تم عیش کے دن ختم ہوتے ہی ایک دن بھی رہنا پسند نہیں کرتے ؟ کون سی قومیت اور کون سی وطن پرستی ؟ نہیں یہ سوال بھی ہم جیسے مہاجروں کے لئے ہے ۔ جو اپنے ملک کو اس وقت چھوڑ کر نکلنے پر مجبور کر دئے جاتے ہیں جب وہ اپنی جائے پیدائش پر ہی پنپنا چاہتے ہیں ۔عمر کے اُس حصے میں جہاں خواب گیلے گیلے ہو تے ہیں ، انہیں دفنا کر ، اپنے ننھے منے بچوں کے مستقبل کو بچانے کے لئے باہر کو نکل جاتے ہیں ۔ ان کے پاس تو یہ سہولت بھی نہیں ہو تی کہ وہ اپنے کئرئیر کا مزہ اٹھا کر، اس ملک سے سارے فائدے اٹھا کر ، پھر باہر کو بھاگیں ، وہ تو سر اٹھا کر اپنی تعلیم کو ، اپ گریڈ کرتے اپنی جوانی ان اجنبی سڑکوں پر رول دیتے ہیں ۔۔ اور جب مڈل ایج تک پہنچتے پہنچتے ،کچھ معاشی سکون میں آتے ہیں تو سوائے اپنے بچوں کے مستقبل اور ان کی سنہری زندگی میں امن و سکون کے اور اپنے لئے سوائے اپنی بچپن کی گلیوں کی یادوںکے سوا کچھ باقی نہیں بچتا ۔۔ اور وہاں بیٹھا سنئیر بیور کریٹ ، سیاست دان ، فوجی ، اور صحافی اس کی اسی جذباتیت سے کھیلتے ہو ئے " وطن کا تم پر قرض ہے "کا نعرہ لگاتا ہے ۔۔اور وہ جس کی ساری عمر اپنی شناخت اور روٹی کمانے کی مشقت میں وطن سے دور کٹ چکی ہو تی ہے ، وہ بچارہ ، بزرگوں کی قبروں کو پکی کرنے کے ساتھ اپنے کچے کچے ، دفنائے ہوئے خوابوں کو پھر سے زندہ کرنے کی خواہش میں جی اٹھتا ہے اور سوچتا ہے اپنی مٹی میں اپنا گھر بنائوں گا لیکن ہوتا کیا ہے ایسے خواب دیکھنے کے جرم میں ان کی عمر بھر کی کمائی ہتھیا لی جاتی ہے ۔ملک چھوڑ کے گئے ہو تو بس عمر بھر تاوان بھرتے رہو ۔۔مختلف طریقوں سے ۔۔۔
ٹی وی پر زمان پارک کے آگے دھرنہ دینے والے ڈی ایچ اے ( ویلی ) جنرل کیانی برادارن کے ہاتھوں لٹے پٹے مڈل کلاس پروفیسر اور ٖڈاکٹرز کو پو لیس کے ہاتھوں دھکے کھاتے دیکھا ، تو وہ پچھلے سارے منظر نامے آنکھوں کے آگے آ دھمکے ، اور گڈ مڈ ہو نے لگے ۔
کینیڈامیں بھی اسی ہاوسنگ فراڈسکیم کے بہت سے متاثرین بیٹھے ہو ئے اپنی جانوں کو رو رہے ہیں۔ کنٹینر سے عمران خان کی للکار سنائی دے رہی جس میں وہ عوام کو یہ یقین دلا رہا ہے کہ اس کے حکومت میں آتے ہی ، بیرون ملک پاکستانی، پاکستان میں دھڑا دھڑ سرمایہ کاری کریں گے ۔ اسی عمران خان کے گھر کے آگے سے پولیس متاثرین کوزدوکوب کر کے بکتر بند گاڑیوں میں پھینک رہی ہے ۔۔پاکستان میں بیٹھا ہوا وہ سنئیر صحافی ،ا س جونئیر صحافی کو درست مشورہ دے رہاہے کہ پیچھے پلٹ کے مت دیکھنا پتھر کے ہو جائو گے ۔۔
تارکین وطن کی حالت بہت قابل ترس ہے ، پاکستان میں موجود رشتے دار بھی انہیں اپنے معا ملات میں بولنے کا حق نہیں دیتے ، ان کی آنکھوں میں واضح پیغام ہو تا ہے کہ تمھارا کام صرف پیسے دینے تک ہے اس سے آگے ہمارے مامے نہ بنو ۔۔ یہی پیغام حکومت اسے دیتی ہے۔(جاری)