دو افسانہ نگاروں کی موت
ایک زمانے میں علامتی افسانوں کا غلغلہ تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ کہانی مرگئی ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ کہانی واپس آ گئی ہے۔ تجریدی افسانہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں لسانی سطح پر تجربے کا شعور اٹھا جس کے زیر اثر عصری افسانے اور نظم میں ترسیل معانی کے بجائے لفظوں کی جادوگری کو ترجیح دی گئی اور ہمارا افسانہ پہیلی کی سطح پر جا پہنچا۔ اس عمل نے افسانے کے قاری کو بہت مایوس کیا اور کہا جانے لگا کہ افسانے میں کہانی مر گئی ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر انور سجاد، رشید امجد اور بھارت میں بلراج منرا، سریندر پرکاش نے پیچیدہ اور نامانوس طرز اختیار کیا۔ اب اردو افسانہ اس تجربے سے نکل آیا ہے لیکن ہر تجربہ اپنی افادیت رکھتا ہے۔ اس تحریک نے بھی افسانہ پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور چھوڑا ہے۔ موجودہ افسانہ نگاروں نے ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آج جو افسانہ لکھا جا رہا ہے وہ نہ تو یک سطح بیانیہ ہے اور نہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس میں کہانی کا عنصر بھی ایک بار پھر نمایاں ہوتا جا رہا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ افسانہ اگرچہ روایتی افسانہ تو نہیں ہے لیکن باطنی سطح پر روایت سے ایک مضبوط تعلق ضرور رکھتا ہے۔
افسانے کے حوالے سے یہ باتیں مجھے دو معروف افسانہ نگاروں محمد سعید شیخ اور ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے انتقال کے موقع پر یاد آئیں۔ محمد سعید شیخ افسانہ کے علاوہ ناول نگار بھی تھے جو 24 ستمبر کو انتقال کر گئے۔ آپ نے 1972ء میں صوبائی سول سروس حاصل کی۔ لاہور سمیت مختلف شہروں میں سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ 2007ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت کی۔ کتاب ’’تمنا بے تاب‘‘ میں انہوں نے اپنی قلبی اور روحانی کیفیات بیان کیں۔ ایک تصنیف ’’ڈی سی نامہ‘‘ 2004ء میں شائع ہوئی۔ یہ پاکپتن میں ڈپٹی کمشنری کی کہانی ہے جو بابا فریدؒ کی شخصیت سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔ محمد سعید شیخ کا ناولٹ ’’اقبال جرم‘‘ ایک عجیب و غریب کردار کے بارے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کردار حقیقی ہے۔ میں نے اسے اختراع نہیں کیا۔ یہ پہلے سے موجود تھا۔
’’تمنا بے تاب‘‘ عمرے کا سفرنامہ ہے جس کو محمد سعید شیخ نے زندگی کا سب سے روشن تجربہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی کچھ کیفیات کو قلم بند کر سکنے میں کامیاب ہو گیا، یہ ایسے ہی ہے جیسے خوشبو کو مٹھی میں بند کرنے کی کوشش۔ یوں ہوا کہ چالیس پینتالیس برس تک میں جن مقامات کے متعلق پڑھتا رہا، سنتا رہا جو میرے خوابوں میں بستے رہے۔ اچانک وہ سب مجسم ہو کر میرے سامنے آ گئے۔ میں اس سفر کی تمام کیفیات کو تو نہ سنبھال سکا جو کچھ اس وقت یا بعد میں یادداشت میں نقش ہو گئیں۔ انہیں ہی قلم بند کر سکا۔ یہ میرا باہر کا اور اس کے ساتھ اندر کا بھی سفر تھا۔ اب بھی جب اس تحریر کو پڑھتا ہوں تو خود پر حیران زدہ ہو جاتا ہوں۔
افسانہ اور انشائیہ نگار ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش 62 سال کی عمر میں 4 اکتوبر کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کا ایک انشائیہ ’’دشمن‘‘ میں نے رسالہ ’’سانجھاں‘‘ میں جولائی 2015ء میں شائع کیا۔ سلیم آغا کے انشائیہ میں اقتباس پیش ہے ’’دشمنی ہر رنگ میں ملتی ہے، چاہے گھر کا دالان ہو، جنگ کا میدان ہو یا پھر اسمبلی کا ایوان، یہ تینوں جگہوں پر تھپڑوں، گولیاں اور گالیوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے مگر جو شخص شادی شدہ نہ ہو، نہ سپاہی اور نہ رکن اسمبلی، وہ ایک عدد بکری خرید کر بیسیوں دشمنیاں مفت میں پال سکتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں بغیر دشمن کے آدمی ایک ایسے مریض کی طرح ہے جو آکسیجن کے سلنڈر کے سہارے اپنے دن پورے کر رہا ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی حالت اس مسافر جیسی ہے جو صحرا میں اپنی ناقہ گم کر بیٹھا ہے۔
بہرکیف یہ حقیقت کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں کہ موت اور زندگی، تاریکی اور روشنی، نفرت اور محبت ایک دوسری کی دشمن ہیں اور اس دشمنی کی رسی کا سلسلہ بہت دراز ہے۔ اتنا دراز کہ اسے ابتدائے آفرنیش کی دھندلی فضا میں پیدا ہونے والی خیر اورشر کی دشمنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے‘‘
سلیم آغا قزلباش افسانہ اور انشائیہ نگار کے علاوہ شاعر، نقاد اور مترجم بھی تھے۔ آپ ڈاکٹر وزیر آغا کے اکلوتے صاحبزادے تھے۔ پیدائش سرگودھا میں ہوئی اور وہیں سے میٹرک کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج سرگودھا سے کیا۔ ایم اے (اردو) اوری اینٹل کالج لاہور سے کرنے کے بعد سرگودھا منتقل ہو گئے۔ 1996ء میں ’’جدید اردو افسانے کے رجحانات‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی ایک کہانی ’’سیہ پوش‘‘ کو انگریزی میں ترجمہ کر کے ’’ٹونٹی سٹوریز آف ساؤتھ ایشیا‘‘ کے انتخاب میں شامل کیا گیا۔ اپنے والد ڈاکٹر وزیر آغا کی وفات کے بعد ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے اپنے ایک مضمون میں اپنے والد کے آخری لمحات کے بارے میں لکھا ’’بستر علالت پر بھی آغا جی (ڈاکٹر وزیر آغا) کائنات کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔انہوںنے مجھ سے کسی دنیاوی معاملے پر اشارتاََ بھی کوئی بات نہیں کی۔ کوئی نصیحت، کوئی وصیت بھی نہیں کی۔ شاید انہیں اس کا پورا یقین تھا کہ میں یہ ساری ذمے داریاں سلیقے سے نبھاؤں گا‘‘ ۔