وزیراعظم کی نااہلی کیلئے نظرثانی درخواست مسترد : تھرکول منصوبہ میں 4 ارب کا نقصان ہوا : چیف جسٹس‘ معاملہ نیب کے سپرد
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے عمران خان کواہل قرار دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دےا کہ پانامہ لیکس کیس سے اس کیس کا موازانہ کرنا درست نہیں،ہر کیس کے اپنے اپنے حقائق ہوتے ہیں، عدالت کیس میں قانونی نکات کی وضاحت کرچکی ہے نظر ثانی اپیل قابل سماعت نہیں جبکہ درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھاکہ ایک ہی نوعیت کے مقدمات کے لئے شہادت کا معیار ایک ہی ہونا چاہیے مختلف معےار اختےارنہیں کےا جاسکتا ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت فیصلوں کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستوں کو بطور انٹرا کورٹ اپیل سننے کا موقف تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریما رکس دیے کہ حنیف عباسی کی آئینی پٹیشن کے فیصلے میں عدالت نے ہر نکتے کا وضاحت سے ذکر کیا ہواہے۔اکرم شیخ نے کہا کہ پانامہ لیکس کیس میں عدالت نے سخت ذمہ داری کا اصول وضع کیا ہے،اسی اصول قانون کا اطلاق زیر غور کیس پر بھی ہوگا۔بدھ کو نظر ثانی درخواست کی سماعت ہوئی تو حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ عمران خان نے ٹکڑوں میں غیر مصدقہ دستاویزات جمع کیں جو قانون شہادت پر پورا نہیں اتر رہی تھیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سچائی کی تلاش میں عدالت اپنے اطمنان کے مطابق انکوائری کرتی ہے،ہم نے اپنے فیصلے میں ان دستاویزات کا ذکر کیا ہے۔شیخ اکرم نے کہا کہ اپنی غلطیوں کو درست کرنا ایک آسمانی اختیار ہے اور آئین کے آرٹیکل 188کے تحت فیصلوں کا از سر نو جائزہ لینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ایک امانت ہے۔انھوں نے پانامہ لیکس کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ پانامہ لیکس کیس میں پانچ ججوں کے فیصلے کا تین رکنی بینچ پابند ہے جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ جو حوالہ آپ نے دیا وہ ایک جج کی اقلیتی رائے ہے،فیصلہ تین ججوں نے دیا تھا اور نواز شریف کی نااہلیت اقامہ پر ہوئی تھی۔وکیل نے مزید کہا کہ عمران خان نے 2002کے کاغذات نامزدگی میں اہلیہ جمائما کے اثاثے ظاہر نہیں کئے حالانکہ وہ ایک مالدار خاتون تھیں اور رسپانڈنٹ نے ان سے قرض بھی لیا تھا۔قانون کے مطابق اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہ کرکے انھوں نے بے ایمانی کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اپنے فیصلے میں اس نکتے کاا حاطہ کیا ہوا ہے۔ جسٹس بندیال نے وکیل سے کہا کہ آپ غیر ضرروی طور پر دو الگ الگ مقدمات کو ملا رہے ہو،نیازی سروسز لمٹیڈ (این ایس ایل)کے معاملہ میں فیصلے میں تفصیلی ذکر موجود ہے۔ اکرم شیخ نے دلائل مکمل کئے تو عدالت نے نظر ثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ اٹھائے گئے نکات نظر ثانی میں نہیں آتے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مارگلہ ہلز میں درختوں کی کٹائی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی ۔ایک سماجی کارکن نے بتاےا کہ اسلام آباد کے علاقہ جی اور ایف الیون کی گرین بیلٹ ختم کی جارہی ہیں درختوںکاٹے جارہے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنر ل نے بتایا کہ ابھی تک اسلام آباد کی حد بندی سے متعلق رپورٹ نہیں آئی ، اس پر عدالت نے ہدایت کی کہ رجسٹرار آفس سروے جنرل آف پاکستان سے رابطہ کر کے اسلام آباد کی حد بندی کے حوالے معلوم کرے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مارگلہ ہلز کے جنگلات پر تعمیرات نہیں ہو سکتی، اس لئے کسی نجی شخص کے پاس مارگلہ کے جنگلات ہیں تو محکمہ زمین حاصل کرے اور اس شہری کی زمین لینے پر معاوضہ دیا جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ہے۔دریں اثناءسپریم کورٹ نے تھر کول پراجیکٹ کا فرانزک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ تھرکول گیسی فیکشن منصوبہ سے ماحول کو نقصان پہنچنے سے متعلق رپورٹ کی سفارشات پرحکومت سندھ سے جواب طلب کرلیا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اڈیٹر جنرل پاکستان کو جنگی بنیادوں پر منصوبے کا اڈیٹ کرنے اور چیف سیکرٹری سندھ کو منصوبے کے تمام ساز وسامان کو تحویل میں لے کر محفوظ کرنے کی ہدایت کی ہے۔عدالت نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام سامان کی تصاویر بنا کر رجسٹر میں ان کی انٹری کرائے اور منصوبے سے منسلک ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے بارے رپورٹ بنا کر جمع کرے۔دوران سماعت عدالت نے چیف جسٹس نے کہا کہ تھر کے کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنے کے منصوبے سے حکومت کو اربوں روپیہ کا نقصان پہنچا،منصوبے سے سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونی تھی لیکن آٹھ میگاواٹ پیدا ہو نے کے بعد منصوبہ بند ہوگیا،جنہوں نے ناقابل عمل منصوبہ بنایا کیوں نہ ان کے خلاف نیب کارروائی کرے،ایک غریب ملک کی دولت کو اس طرح ضائع کیا گیا،کوئی نہ کوئی تو ناکام منصوبہ کی ذمہ داری قبول کرے ۔چیف جسٹس نے کہا ڈاکٹر ثمر مبارک نے پروجیکٹ کے حوالے سے غلط بیانی کی، 100 میگاواٹ منصوبے سے 3 میگاواٹ بجلی بھی نہیں مل رہی۔کیس کی سماعت ہوئی تو عدالتی معاونین نے رپورٹ پیش کی کہ پراجیکٹ سے خزانہ کو اربوں کا نقصان ہوا،کوئلہ کو گیس میں تبدیل کرنے سے زیر زمین تبدیلیوں کا امکان ہے جس سے ماحولیاتی ،مسائل پیدا ہوں گے۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ تھر کول گیسی فکیشن منصوبہ ناقابل عمل تھا اس لئے بند کردیا گیا،سائٹ پر جرمن کمپنی بھی کام کررہی ہے۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ منصوبے کے لئے وفاقی حکومت نے چار اعشاریہ پانچ ارب روپیہ فراہم کیے لیکن کوئلہ میں پانی کی آمیزش کی وجہ سے بند کیا گیا کیونکہ اس کے منصوبہ ماحولیاتی مسائل کا باعث بن سکتا تھا۔چیف جسٹس نے کہا جس نے یہ منصوبہ بنایا کیا اس نے اندازہ نہیں لگایا کہ اس سے کوئی حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ زمین کے نمونوں کا معائنہ کرکے باقاعدگی کے ساتھ سندھ حکومت کو رپورٹس بھیجی جاتی تھیں،منصوبہ ناکام نہیں ہوا،بلکہ اس سے 2500 سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم معاملہ نیب کو بھیج دیتے ہیں کہ وہ رپورٹ بنا کر دے۔ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ کوئلہ کو زیر زمین گیس میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن تھر کے معاملے میں یہ اندازہ نہیں لگایا گیا کہ گیس نکلنے کے بعد زمین کے اندر کیا تبدیلیاں آئیں گی۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ بادی النظر میں زیرزمین گیسی فیکشن منصوبہ قابل عمل نہیں۔ عدالت نے معاملہ نیب کو بھجوا دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ منصوبے سے سستی بجلی پیدا ہونے کے دعوے کیے گئے، اس کام کے لیے اربوں روپے پتوں کی طرح بانٹے گئے، جو چار ارب روپے ضائع ہوئے اسکا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ڈاکٹر ثمر مبارک مند رقم واپس کریں گے یا کوئی اور؟، خود کو بڑا سائنسدان کہتے تھے اتنا پیسہ منصوبہ پر لگوا دیا، ڈاکٹر ثمر مبارک نے منصوبے کے حوالے سے غلط بیانی کی، غلط رہنمائی پر یہ منصوبہ شروع کیا گیا، کیا اس طرح کے کام کر کے پیسہ ضائع کردیں، کسی کو جوابدہ ٹھہرانا پڑے گا۔چیف جسٹس نے کہا پاکستان غریب ملک ہے کیا اس کا پیسہ ایسے ضائع کرناہے، تھرکول گیسی فیکیشن سے بجلی بنانے کے دو طریقے ہیں، ایک کوئلہ نکال کر بجلی پیدا کی جاتی ہے، دوسرا وہ جو بندر گاہوں پر پلانٹ لگائے ہیں۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ اس منصوبے میں کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی، آسٹریلیا کی ایک کمپنی بھی زیر زمین گیسی فکیشن کر رہی تھی لیکن ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے بھا گ گئی ۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر ثمر سے مکالمے کے دوران کہا مجھے پتا تھا آپ یہی کہیں گے، جب ثمر مبارک نے دعوے کیے تو رومانس ہوگیا، کہا گیا کہ مفت بجلی ملے گی لیکن خزانے کو 4 ارب کا نقصان کردیا گیا۔عدالت نے معاونین کی رپورٹ پر ڈاکٹر ثمر مبارک، وفاق اور سندھ حکومت سے 15 دن میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔سپریم کورٹ میں تعلیمی اصلاحات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی بھی سماعت ہوئی، فاضل عدالت نے نے قانون و انصاف کمیشن کی تیارکردہ تعلیمی اصلاحات پالیسی ویب سائٹ پر آویزاں کرنے کا حکم دیدیاہے۔سپریم کورٹ نے سندھ میں ہندو برادری کی اراضی پر ناجائز قبضے بارے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے اقلیتوں کی زمینوں کی انکوائری کیلئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہندو بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔سپریم کورٹ نے پمزہسپتال میں ضم ہونے والے ڈیپوٹیشن داکٹروں کو واپس بھیجنے کے بارے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے پمز اور پولی کلینک سمیت اسلام آباد کے 6 ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی سکروٹنی سے متعلق معاملہ حل کرنے کیلئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری صحت کی سربراہی میں ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور جوائنٹ سیکرٹری قانون و انصاف پر مشتمل کمیٹی مذکورہ ہسپتالوں میں ڈیپوٹیشن پر آکر ضم ہونے والے ڈاکٹرز کو سن کر تین ہفتوں میں رپورٹ پیش کرے گی ۔سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ اور سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ”غیر مشروط معافی “ مانگنے کی بنےاد ختم کر دی ہے۔ جبکہ شریک مفرور انسپکٹر سندھ سیف اللہ پھل پوٹو کو دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ماہ میں پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سپریم کورٹ میںاسلام آباد میں خواتین کی مخصوص نشست نہ ہونے کے خلاف آمنہ صدف کی دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ فاضل عدالت نے حکومت سے 10دن میں جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر باقی صوبوں میں یہ نشستیں موجود ہیں اور اسلام آباد میں نہیں تو یہ امتیازی سلوک ہے،یہ آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی رولنگ پارٹی ہے قانون سازی کیوں نہیں کرتی؟سپریم کورٹ میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سرکاری افسران کی تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق نظر ثانی اپیلوں کا معاملہ۔ عدالت نے امیر ہانی مسلم کے فیصلے کے خلاف تمام نظر ثانی اپیلیں زائد المیعاد ہونے پر مسترد کرتے ہوئے خارج کردی ہیں،فیصلے سے متاثر ہونے والے متعدد سرکاری افسران نے اپیلیں دائر کر رکھیں تھیں۔سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان کی سنےارٹی سے متعلق آئینی درخواست خارج کردی ۔ کیس کی سماعت جسٹس عظمت سعید شیخ کے سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ۔جسٹس فرخ عرفان نے سپریم جوڈیشنل کونسل میں درخوست دائر کی تھی کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس قاسم مظاہر نقوی سے سینر ہیں۔ سینئرہونے کے باوجود انہے وہ سنیارٹی نہیں ملی جس کے وہ مستحق ہیں۔
اسلام آباد(محمد صلاح الدین خان) سپریم کورٹ میں عمران خان نااہلی نظر ثانی اپیل کی سماعت کے دوران بنچ اور حنیف عباسی کے وکیل کے درمیان دلچسپ مکالمات کا تبادلہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا میں نے فیصلہ کے ہر صفحہ پر شیخ محمد اکرم کا نام لکھ کر عزت بخشی اور محبت کا اظہار کےا، سپریم کورٹ سب کی ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ میں بھی سپریم کورٹ کا حصہ ہوں میں بھی پچاس سال سے عدالتی معاونت کررہا ہوں۔ جسٹس عمر عطاءبندےال نے کہا کہ آپ کی وکالت کی خوبصورتی یہ ہے کہ آپ فیصلہ پڑھے بغیر دلائل دے رہے ہیں، شاید آپ سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ میں مقدمہ مکمل تیار کرکے آتا ہوں اور آنے سے پہلے بھی فیصلہ تین بار پڑھ کر آےا ہوں، معزز جج صاحبان کے احترام میں فیصلہ نہیں پڑھ رہا، فیصلہ پڑھا تو ایسی باتیں آئیں گی جو آپ کو ناگوار گزر سکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ صاحب میں نے بھی احترام میں آپ کی کمزوریوں کو فیصلے میں نہیں لکھا ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ مجتہد کی غلطی کو درست کرنے پر قرآن نے زور دیا ہے، اللہ نے کہا ہے کہ مجتہد سے میں حساب لوں گا، اگر مجتہد کو دنیا میں اپنی غلطی کا پتہ چلے تو درست کرلے۔
مکالمہ