• news
  • image

دوستوں کیلئے ایک التجا مگر کس کے نام

وہ سارا سارا دن میوہسپتال میں موجود رہتے اور حاجت مند لوگوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ سابق ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز سے ان کا تعلق مثالی تھا۔ میں بھی اپنی پیاری بیٹی تقدیس نیازی کی وجہ سے وہاں ہوتا تھا۔ اس طرح ایک بڑی محبت ہم دونوں کے درمیان استوار ہوتی۔ ہم نے وہاں کئی غریب اور مستحق لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کیں۔ ان کی وفات کی خبر مجھے شہر بانو نے سنائی تو میں سن ہو گیا۔
پچھلے کئی دنوں سے ان کے ساتھ رابطہ نہ تھا۔ اللہ ایسے لوگوں کیلئے جنت کے سارے دروازے کھول دے۔ روز محشر وہ تمام مریض بھی ذاکر خواجہ کیلئے سفارشی ہونگے۔ میرے لکھے ہوئے کئی کالموں میں ذاکر خواجہ کو ڈاکٹر خواجہ لکھ دیا گیا جو مجھے اچھا لگا۔ میں شہر بانو کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے دوست کیلئے یاد رکھا۔ میں ہر خدمت کیلئے حاضر ہوں۔ میں بیٹی کی طرف سے ہر حکم کا منتظر رہوں گا۔
ابھی تک قابل عزت پروفیسروں کو احتساب عدالت میں لایا جا رہا ہے۔ ان محترم اساتذہ میں پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر مجاہد کامران بھی تھے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران تو ایک بہت پڑھے لکھے اور اعلیٰ رتبے اور منصب کے عالمی آدمی ہیں۔ ان کیلئے بہت دکھ ہے۔ اس رسوائی میں پاکستان کا ہر تعلیم دوست آدمی برابر کا شریک ہے۔اس ملک میں رہنے کا اب فائدہ کیا مگر ہم بہت بدقسمت لوگ ہیں۔
پروفیسر مجاہد کامران کیلئے مجھے تو معلوم نہیں کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ ان کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر محترمہ شازیہ ہیں۔ وہ بھی ایک بڑی ماہر تعلیم ہیں اور پروفیسر ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ میرے لئے کیا خدمت ہے۔ وہ اکیلی ہی سب مشکلوں کا سامنا کر رہی ہیں۔
میں ڈاکٹر مجاہد کامران کیلئے پریشان ہوں اور پریشان ہونا ہی اس ملک میں ہم جیسوں کی قسمت میں ہے۔ خدا کیلئے مجھے گرفتار کر لو مگر پروفیسر مجاہد کامران کو رہا کر دو۔ میں نے انہیں دیکھاہے۔ وہ بہت مخلص آدمی ہیں۔ ان سے بڑا تعلیم دوست آدمی شاید ہی کہیں ہو۔ انہوں نے مجید نظامی کوڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ نظامی صاحب کی ہدایت پر حمید نظامی کیلئے شعبہ ابلاغیات میں ایک چیئر بنوائی گئی اور نظامی صاحب کی ہی ہدایت پر مجاہد کامران نے مجھے اس کیلئے پہلاپروفیسر لگایا۔ میں نے تین کتابیں دو سال میں حمید نظامی کیلئے شائع کیں۔ ابھی تک نئے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد سے گزارش نہیں کی گئی کہ وہ بھی اس حوالے سے کردار ادا کریں۔
حکمرانو! پروفیسر مجاہد کامران کو فوراً رہا کرو۔ یہ ساری حکومت کیلئے عزت افزائی ہوگی۔ ورنہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے۔ اس پر احتجاج ہو رہا ہے۔ میں بھی احتجاج کروں گا اور بھوک ہڑتال کروں گا۔ احتجاج شروع ہوا تو یہ حکومت کیلئے رسوائی کا باعث ہے کہ یہاں استادوں کو ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔
میں ایک بڑے بھارتی ا داکار امیتابھ بچن کو بہت پسند کرتا ہوں۔ دلیپ کمار کے بعد اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ امیتابھ ایک عالمی شخصیت ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی اور فلاحی شخصیت بھی ہیں۔ وہ ایک بڑے دانشور بھی ہیں۔ انہوں نے کئی کروڑ روپے اتر پردیش کے کسانوں کے لئے قرضوں کی ادائیگی میں بھی دئیے ہیں۔ یہ کارنامہ پاکستان میں بھی کوئی کروڑ پتی اداکار کرے۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی اسیر بہن کے لئے بہت متحرک رہی ہیں۔ میرے ساتھ بھی ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں اب وہ خاموش ہیں۔ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے؟ وہ بڑے دنوں سے لاہور میں نہیں آئی ہیں۔ اب امریکہ کو بھی چاہئے کہ وہ عافیہ صدیقی کو رہا کر دے۔ وہ باقی قید اپنے ملک میں بھی پورا کر سکتی ہیں۔ امریکہ پوری دنیا کے لئے فلاحی جذبہ بھی ر کھتا ہے۔ امریکی امداد سے دنیا کے کئی کام چلتے ہیں۔
مجھے بیٹی شہربانو نے بتایا کہ ایک بہت مخلص دوست اور دوسروں کی مدد کرنے و الے برادرم ڈاکٹر خواجہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ گزرے ہوئے سارے لمحات یاد آتے ہیں۔ وہ بہت سرگرم اور انتھک آدمی تھے۔ دوستوں کے دوست تھے۔ میو ہسپتال سے ان کا خاص تعلق تھا۔ سب ڈاکٹر ان کی عزت کرتے تھے۔ وہ مریضوں اور غریب مریضوں کے لئے ہمیشہ ایک بہت بڑے جذبے میں رہتے تھے۔ ڈاکٹروں سے زیادہ وہ میو ہسپتال کے مسائل اور معاملات سے آگاہ تھے۔ وہ بہت بہادر اور محبت کرنے والے آدمی تھے۔ ڈاکٹروں کو محبت کرنے اور خدمت کرنے کے لئے بہت ہدایت کرتے تھے۔
میں میوہسپتال میں ان کی رفاقت کو ایک نعمت کی طرح محسوس کرتا تھا۔ برادرم اقبال اور علی حسین عابدی آئے مجھے اقبال راہی بہت اچھے لگتے ہیں۔ بغیر کسی لالچ اور صلے کے وہ شعر و ادب کے متعلق خواتین و حضرات کی خدمت کرتے ہیں۔ مرے سامنے اور کوئی مثال پاکستان میں نہیں۔ وہ ان تھک آدمی ہیں۔ میرے ساتھ ان کی محبت بے مثال ہے وہ ہر شخص کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
وہ بے پناہ شاعر ہیں۔ فی البدیہہ لکھتے میں ان کا ثانی نہیں۔ کسی بھی محفل کی کامیابی کے لئے اقبال راہی کا تعاون کافی ہے۔ علی حسین عابدی نے مجھے اپنا شعری مجمومہ ”آیت عشق“ پیش کیا ان کی یہ زبردست بامعنی اور خوبصورت عنوان والی کتاب ہے۔ عشق ایک ہمہ گیر جذبہ ہے عشق کے حوالے سے شاعری پتوں جیسی ہوتی ہے۔ اسی لئے اسے الہامی جذبہ بھی کہتے ہیں۔ علی حسین عابدی کا دل بھی اللہ کے کسی انعام کا مرکز ہے۔
کرب تخلیق کا چھایا رہا منظر مجھ پر
آیت عشق اترتی رہی شب بھر مجھ پر
عابدی عشق عداوت ہے کہا تھا اک دن
عکس میرا ہی چلانے لگا خنجر مجھ پر
خاص طورپر مجھے کتاب کا انتساب دیکھنے کے لئے کہا گیا۔ ان کے نام جنہوں نے آنکھ کھلتے ہی علم اور شعور کی پھونکوں سے دم کیا اور تادم آخر مجھے رنگ بدلنے والی دنیا اور مستقل غم بانٹنے والے زمانے سے خوشی کشید کرنے کا ہنر بخشا، والد محترم خواجہ مودت حسین مرحوم اوروالدہ محترمہ شمیم اختر مرحومہ کے نام۔ اقبال راہی نے شاعر کو خالص غزل کا شاعر قرار دیا ہے۔ میں شاعری کے صدر دروازے پر خیرمقدم کرتا ہوں۔
جو مدتوں سے مراقبے میں پڑا ہواہے
وہ شخص عقبیٰ کی عزتوں میں پڑا ہواہے
٭٭٭٭٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن