پاکستان خشک ہو رہا ہے‘ آبی کانفرنس میں کوئی حکومتی نمائندہ نہیں آیا : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پاکستان خشک ہو رہا ہے اور کوئی حکومتی نمائندہ آبی کانفرنس میں نہیں آیا۔ زیرزمین پانی بلامعاوضہ بوتلوں میں فروخت کرنے والی کمپنیوں کیلئے نرخ مقرر کرنے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قابل مذمت ہے، اتنے کم نرخ مقرر کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے زیرزمین پانی بلامعاوضہ بوتلوں میں فروخت کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ پنجاب نے رپورٹ میں پانی کے استعمال کو 3 حصوں میں تقسیم کیا، جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے وہاں ایک لٹر پر 75 پیسے ادا کرنے ہوں گے، جہاں پانی کی کمی نہیں وہاں ایک لٹر پانی پر 15پیسے ہوں گے۔ رپورٹ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انہوں نے تو گدھا کنویں میں ڈال دیا ہے، اس سے بہتر ہے پیسے لیے ہی نہ جائیں۔ ایک کمپنی نے شیخوپورہ میں 6 ایکڑ زمین لےکر اربوں کا پانی بیچ دیا، منرل واٹر بیچنے والے 50اور 75پیسے تو خود مان رہے ہیں، ہم نے یہ نرخ قبول نہیں کیا، اربوں روپے کا پانی لے رہے ہیں، پنجاب حکومت کی رپورٹ قابل مذمت ہے، اتنے کم نرخ مقرر کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو پیر کو طلب کرلیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان خشک ہو رہا ہے، کوئی حکومتی نمائندہ آبی کانفرنس میں نہیں آیا، دنیا ہمارے لیے رو رہی ہے، پاکستان خشک ہو رہا ہے۔ عدالت نے پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کا فرانزک آڈٹ کراکر ہفتہ وار رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے تسلی بخش جواب نہیں دیا، چیف سیکرٹری بلوچستان منگل کو پیش ہوں۔ عدالت نے خیبر پی ک کے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری آبپاشی کو بھی طلب کرلیا جب کہ سندھ کے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری آبپاشی کو کراچی میں پیش ہونے کا کہا۔ چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کو دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا اور آئندہ سماعت پر چاروں صوبوں کے سیکرٹریز کو بھی طلب کرلیا۔ دریں اثناءچیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ خیبرپی کے میں دعوﺅں کے برعکس ہسپتا لوں کی حالت خراب ہے اور جو حکومت تعلیم اور صحت فراہم نہیں کر سکتی وہ صرف نام کی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہسپتالوں کا فضلہ کئی بیماریوں کی وجہ ہے۔ 17 ہزار ٹن فضلہ روزانہ عوامی مقامات پر پھینکا جاتا ہے، کیا فضلہ ٹھکانے لگانے کے لیے مشینری ہے؟۔ صوبائی سیکرٹری صحت عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور بتایا کہ روزانہ 21 ہزار کلو سے زائد فضلہ پیدا ہوتا ہے، کے پی کے میں فضلہ ٹھکانے لگانے کا موثر نظام موجود ہے، عدالت دو ماہ کا وقت دے فضلہ ٹھکانے لگانے کی مشینری بھی نصب کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موثر نظام ہونے کا بیان حلفی دیں، اس کے بعد عدالت تحقیقات کروائے گی، فضلہ ٹھکانے لگانے کی مشین تندور نہیں جو ایک دن میں لگ جائے۔ عدالت نے صوبائی وزیر صحت کو منگل کو طلب کرتے ہوئے ہسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے سے متعلق وضاحت طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ خیبرپی کے میں صحت کی سہولیات کے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر چیف سیکرٹری نے خود تسلیم کیا کہ ہسپتالوں کی حالت خراب ہے، ایمرجنسی میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، صرف ہسپتالوں کے بورڈ بنا دینا کافی نہیں، صوبے کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملہ بھی پورا نہیں، جو حکومت تعلیم اور صحت فراہم نہیں کر سکتی وہ صرف نام کی ہے، صحت اور تعلیم کے شعبے کو دیکھنا عدالت کا کام نہیں، حکومت کی نااہلی کے باعث عدالت کو ہسپتالوں میں مداخلت کرنا پڑی، ایوب میڈیکل کمپلیکس میں سہولیات کا فقدان ہے، سپریم کورٹ نے خیبرپی کے کے تمام سرکاری سپتالوں کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے دستیاب سہولیات کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔ کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی گئی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے ریلوے اراضی کی فروخت کے معاملے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ریلوے کی زمین ریلوے کی نہیں سرکار نے دی ہے‘ ریلوے کی زمین فروخت کرنے کے لئے صدر سے منظور ی لی جاتی ہے‘ ریلوے کی پوزیشن واضح ہوجائے پھر اس کو دیکھیں گے۔ دوران سماعت ساﺅنڈ سسٹم خراب ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کمپنی کے سی ای او کو تلاش کریں۔ ریلوے کی زمین ریلوے کی نہیں سرکار نے دی ہے۔ وفاق اور صوبے ان زمینوں کے مالک ہیں ریلوے کو مخصوص مقاصد کے لئے زمین دی گئی ہے۔ سردار اسلم وکیل ریلوے نے بتایا کہ ریلوے کے پاس زمین لیز پر دینے کی اتھارٹی نہیں ہمیں بیان دینے کے لئے وقت چاہئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب کیوں ساری چیزیں یاد آرہی ہیں۔ پہلے اتنے برسوں سے کیا ہورہا تھا؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ وزیر ریلوے کہتے ہیں زمین بیچ کر خسارہ پورا کریںگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کی زمین فروخت کے لئے صدر سے منظور ی لی جاتی ہے صدر کے پاس اختیار ہی نہیں۔ درخواست گزار نے بتایا کہ چکوال میں ریلوے کی زمین پر ہاﺅسنگ سوسائٹی بنا دی گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریلوے کیسے زمینیں فروخت کرسکتا ہے ہمارا نظام خراب ہورہا ہے۔ ایسے مقدمات رات آٹھ سے بارہ بجے تک سنیں گے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ شیخ رشید کے خلاف ہوگئے، ریلوے کی پوزیشن واضح ہوجائے پھر اس کو دیکھیں گے۔ عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس